حسن پری اک جلوۂ مستانہ ہے اس کا

حسن پری اک جلوۂ مستانہ ہے اس کا
by حیدر علی آتش

حسن پری اک جلوۂ مستانہ ہے اس کا
ہشیار وہی ہے کہ جو دیوانہ ہے اس کا

گل آتے ہیں ہستی میں عدم سے ہمہ تن گوش
بلبل کا یہ نالہ نہیں افسانہ ہے اس کا

گریاں ہے اگر شمع تو سر دھنتا ہے شعلہ
معلوم ہوا سوختہ پروانہ ہے اس کا

وہ شوخ نہاں گنج کی مانند ہے اس میں
معمورۂ عالم جو ہے ویرانہ ہے اس کا

جو چشم کہ حیراں ہوئی آئینہ ہے اس کی
جو سینہ کہ صد چاک ہوا شانہ ہے اس کا

دل قصر شہنشہ ہے وہ شوخ اس میں شہنشاہ
عرصہ یہ دو عالم کا جلو خانہ ہے اس کا

وہ یاد ہے اس کی کہ بھلا دے دو جہاں کو
حالت کو کرے غیر وہ یارانہ ہے اس کا

یوسف نہیں جو ہاتھ لگے چند درم سے
قیمت جو دو عالم کی ہے بیعانہ ہے اس کا

آوارگی نکہت گل ہے یہ اشارہ
جامے سے وہ باہر ہے جو دیوانہ ہے اس کا

یہ حال ہوا اس کے فقیروں سے ہویدا
آلودۂ دنیا جو ہے بیگانہ ہے اس کا

شکرانۂ ساقی ازل کرتا ہے آتشؔ
لبریز مئے شوق سے پیمانہ ہے اس کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse