حسن کس روز ہم سے صاف ہوا

حسن کس روز ہم سے صاف ہوا
by حیدر علی آتش
294808حسن کس روز ہم سے صاف ہواحیدر علی آتش

حسن کس روز ہم سے صاف ہوا
گنہ عشق کب معاف ہوا

لے لیا شکر کر کے ساقی سے
درد اس میں ہوا کہ صاف ہوا

تیغ قاتل پر اپنا خون جم کر
مخمل سرخ کا غلاف ہوا

زہر پرہیز ہو گیا مجھ کو
درد درماں سے المضاف ہوا

خاکساری کی ہو چکی معراج
سینہ اپنا زمین صاف ہوا

کمر یار نے دکھائی آنکھ
مردم دیدہ خال ناف ہوا

وعدہ جھوٹا نکردہ مرد نہیں
قول سے فعل جب خلاف ہوا

فاتحہ کو جو وہ پری آئی
سنگ قبر اپنا کوہ قاف ہوا

اس کمر کے ثبوت میں عاجز
فکر کر کر کے موشگاف ہوا

رند مشرب ہوں مجھ کو کیا ہووے
مذہبوں میں جو اختلاف ہوا

وہ دہن ہوں نہ نکلا حرف غرور
وہ زباں ہوں نہ جس سے لاف ہوا

گرد اس کوچہ کے پھرا آتشؔ
حاجی سے کعبہ کا طواف ہوا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.