حصول فقر گر چاہے تو چھوڑ اسباب دنیا کو

حصول فقر گر چاہے تو چھوڑ اسباب دنیا کو
by میر محمدی بیدار

حصول فقر گر چاہے تو چھوڑ اسباب دنیا کو
لگا دے آگ یکسر بستر سنجاب و دیبا کو

رکھے ہیں حق پرستاں ترک جمعیت میں جمعیت
میسر ہووے یہ دولت کہاں ارباب دنیا کو

فریب رنگ و بوئے دہر مت کھا مرد عاقل ہو
سمجھ آتش کدہ اس گلشن شاداب دنیا کو

سیہ مست مے تحقیق ہو گر پاک طینت ہے
نجس مت جام کر تو بھر کے بس خوباب دنیا کو

یہ ہے بیدارؔ زہر آلودہ مار اس سے حذر کرنا
نہ لینا ہاتھ میں تو گیسوئے پر تاب دنیا کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse