حضور داور محشر قیامت خیز ساماں تھا

حضور داور محشر قیامت خیز ساماں تھا
by راجہ نوشاد علی خان

حضور داور محشر قیامت خیز ساماں تھا
ہزاروں ہاتھ تھے اور ایک قاتل کا گریباں تھا

جو ہم دونوں کی قسمت میں پریشانی کا ساماں تھا
مرے دل سے زیادہ یار کا گیسو پریشاں تھا

بھلا جنت میں زیر سایۂ طوبیٰ وہ کیا جاتے
شہیدوں کو تری دیوار کے سایہ کا ارماں تھا

کھلے تھے فصل گل میں پھول یوں شاخ نشیمن میں
گلستاں میں نشیمن تھا نشیمن میں گلستاں تھا

سر بالیں نہ آنا تھا نہ آئے چارہ سازی کو
ہمارے درد دل کا تو انہیں کے پاس درماں تھا

جنوں کا جوش دونا ہو گیا فصل بہاری میں
مری قسمت پہ کیا کیا خندہ زن چاک گریباں تھا

نشان ظلم ظالم صرف مظلوموں سے ملتا تھا
اسیران ستم کی ذات سے آباد زنداں تھا

زمانہ جس پہ شیدا تھا اسی پر ہم بھی شیدا تھے
اسی پر ہم بھی قرباں تھے زمانہ جس پہ قرباں تھا

جب ان سے پوچھتا ہوں کون تھا اقرار تھا جس سے
وہ کہتے ہیں ہمیں ہیں ہاں ہمیں سے عہد و پیماں تھا

نہ شاہان سلف ہیں اور نہ ان کی سلطنت باقی
کہاں ملک سلیماں تھا کہاں قصر سلیماں تھا

عجب انداز سے بکھری ہوئی تھی زلف عارض پر
وہ ظالم کس پریشاں حال کے غم میں پریشاں تھا

دل برباد اپنا بندۂ عشق بتاں ٹھہرا
مسلماں جس کو سمجھے تھے وہ کافر نا مسلماں تھا

ہماری لاش پر کس ناز سے کہتے ہیں وہ ہنس کر
نہیں معلوم کیا نوشادؔ تیرے دل میں ارماں تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse