حقائق
دل ہے پہلو میں تو پیدا شیوۂ ترکانہ کر
جور ہفت افلاک کے ہوتے رہیں پروا نہ کر
غم کو خود آکر بہا جائے گی موج سرور
دیکھتا کیا ہے اٹھ اور فکر مے و پیمانہ کر
دعویٔ الفت جتا کر مفت میں رسوا نہ ہو
دار پر چڑھنے سے پہلے راز عشق افشا نہ کر
ظرف نیساں چاہتی ہے قلزم آشامی تری
برگ گل کی طرح شبنم کے لئے ترسا نہ کر
کام ابراہیمیوں کا ہے کہ کھیلیں آگ سے
کود پڑ شعلوں میں خوف انجام کا اصلا نہ کر
لے کے نام اللہ کا طوفاں میں کشتی ڈال دے
خوف بے پایانیٔ دریائے موج افزا نہ کر
خود عمل تیرا ہے صورت گر تری تقدیر کا
شکوہ کرنا ہو تو اپنا کر مقدر کا نہ کر
سایۂ شمشیر میں پوشیدہ جنت ہے مگر
ناکسوں کے سامنے اس بھید کا چرچا نہ کر
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |