حقیقت سے زباں آگاہ کر لے
حقیقت سے زباں آگاہ کر لے
یہ اسم اللہ بسم اللہ کر لے
دھن سے دور کر قفل دوئی کو
زباں مفتاح الا اللہ کر لے
کدورت دل سے کھو لہو و لعب کی
سعادت سے صفا ہے راہ کر لے
مبارک باد عیش و جاہ و دولت
حظوظ عمر خاطر خواہ کر لے
کہاں فرصت زمان کشمکش میں
مناسب ہے ابھی کچھ راہ کر لے
جسے دیکھا نہ دیکھ اس کو کبھی تو
نہ دیکھا جس کو اس کی چاہ کر لے
سخا ہمت مروت ہیں ترے پاس
کوئی ہم راہ تو ہم راہ کر لے
بھلاوا ہے طلسم زندگانی
وداع حب عضو جاہ کر لے
نسیم دہلویؔ یہ آرزو ہے
کہیں اپنا مجھے اللہ کر لے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |