حیف ہے ایسی زندگانی پر

حیف ہے ایسی زندگانی پر
by میر محمدی بیدار

حیف ہے ایسی زندگانی پر
کہ فدا ہو نہ یار جانی پر

تیری گل کاری ابر ہو برباد
گر فدا ہو نہ یار جانی پر

حال سن سن کے ہنس دیا میرا
کچھ تو آیا ہے مہربانی پر

خون کشتوں کے ہو گیا دل کا
تیری دستار ارغوانی پر

رات بیدارؔ وہ مہ تاباں
سن کے رویا مری کہانی پر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse