خال رخ اس نے دکھایا نہ دوبارا اپنا
خال رخ اس نے دکھایا نہ دوبارا اپنا
چندے اک اور ہے گردش میں ستارا اپنا
دل و دین و خرد و صبر کجا کو آرام
گھر لٹا ہم نے دیا عشق میں سارا اپنا
بولی صیاد سے بلبل کہ نہ کر گل سے جدا
تختۂ باغ ہے یہ تخت ہزارا اپنا
سیر کی ہم نے جو کل محفل خاموشاں کی
نہ تو بیگانہ ہی بولا نہ پکارا اپنا
مثل نے ہم نے تو فریاد بہت کی لیکن
کوئی ہمدم نہ ہوا آہ ہمارا اپنا
دل ہوا چاہ ذقن ہی میں غریق رحمت
اس میں غواص نظر گرچہ اتارا اپنا
کھل گیا عقدۂ ہستی و عدم مثل حباب
لب دریا پہ ہوا جب کہ گزارا اپنا
پیرہن اس کو ہوا خلعت شاہی کہ نصیرؔ
جس نے یہ پیرہن خاک اتارا اپنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |