خال مشاطہ بنا کاجل کا چشم یار پر
خال مشاطہ بنا کاجل کا چشم یار پر
زاغ کو بہر تصدق رکھ سر بیمار پر
مجھ کو رحم آتا ہے دست نازک دل دار پر
میں ہی رکھ دوں گا گلا اے ہمدمو تلوار پر
بے سویدا ہاتھ دل مت ڈال زلف یار پر
ماش پہلے پڑھ کے منتر پھینک روئے یار پر
گر حفاظت رخ کی ہے منظور تو مٹوا نہ خط
باغباں رکھتا ہے کانٹے باغ کی دیوار پر
کون کہتا ہے کہ سبزہ آگ پر اگتا نہیں
خط ہے پیدا یار کے دیکھو رخ گلنار پر
دیکھ مژگاں پر مری طغیانی سیل سرشک
نوح کا طوفاں نہ دیکھا ہووے جس نے خار پر
جس کو دیکھا ہی نہیں اس کے وطن میں قدر خاک
باغ سے ہو کر جدا پہنچے ہے گل دستار پر
حق اگر پوچھو تو اعجاز سر منصور تھا
ورنہ لگنا تھا تعجب پھل کا نخل دار پر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |