خانۂ زنجیر کا پابند رہتا ہوں سدا

خانۂ زنجیر کا پابند رہتا ہوں سدا
by امانت لکھنوی

خانۂ زنجیر کا پابند رہتا ہوں سدا
گھر عبث ہو پوچھتے مجھ خانماں برباد کا

عشق قد یار میں کیا ناتوانی کا ہے زور
غش مجھے آیا جو سایہ پڑ گیا شمشاد کا

خود فراموشی تمہاری غیر کے کام آ گئی
یاد رکھیے گا ذرا بھولے سے کہنا یاد کا

خط لکھا کرتے ہیں اب وہ یک قلم مجھ کو شکست
پیچ سے دل توڑتے ہیں عاشق ناشاد کا

عشق پیچاں کا چمن میں جال پھیلا دیکھ کر
بلبلوں کو سرو پر دھوکا ہوا صیاد کا

قامت جاناں سے کرتا ہے اکڑ کر ہم سری
حوصلہ دیکھے تو کوئی سرو بے بنیاد کا

بے زبانی میں امانتؔ کی وہ ہیں گل ریزیاں
ناطقہ ہو بند اے دل بلبل ناشاد کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse