خبر لیایا ہے ہدہد میرے تئیں اس یار جانی کا
خبر لیایا ہے ہدہد میرے تئیں اس یار جانی کا
خوشی کا وقت ہے ظاہر کروں راز نہانی کا
مرے جیو آرسی میں خیال تج مکھ کا سو دستا ہے
کرے او خیال منج دل میں نشانی زر فشانی کا
چتا ہو عشق کے جنگل میں بیٹھا ہے دری لے کر
لیا ہے جھانپ سوں آہو نمن دل منج ایانی کا
خدا کا شکر ہے تج سلطنت تھے کام پایا ہوں
دندی دشمن کے مکھ پر پیوتا مئے ارغوانی کا
چھبیلے مست ساقی کے پچھیں دوڑے سو مخموراں
پلاوو مئے ہوا اب تو ہوا ہے گل فشانی کا
ہمیں ہیں عشق کے پنتھ میں دونو عالم تھے بے پروا
لگیا ہے داغ منج دل پر اس ہندوستانی کا
پڑے دنبال میں میرے سو اس نیناں کے دنبالے
خدایا عشق مشکل ہے بھرم رکھ توں معانی کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |