خدا جب تک نہ چاہے آدمی سے کچھ نہیں ہوتا
خدا جب تک نہ چاہے آدمی سے کچھ نہیں ہوتا
مجھے معلوم ہے میری خوشی سے کچھ نہیں ہوتا
محبت جذبۂ ایثار سے پروان چڑھتی ہے
خلوص دل نہ ہو تو دوستی سے کچھ نہیں ہوتا
وہاں تیرا کرم تیرا بھروسہ کام آتا ہے
جہاں مجبور ہو کر آدمی سے کچھ نہیں ہوتا
ضیائے شمس بھی موجود ہے نور قمر بھی ہے
بصیرت ہی نہ ہو تو روشنی سے کچھ نہیں ہوتا
غرض تیرے سوا ہر ایک کو مجبور پاتا ہوں
بھروسہ جس پہ کرتا ہوں اسی سے کچھ نہیں ہوتا
خود اپنے حال سے الجھے ہوئے ہیں تیرے دیوانے
ہنسے جائے زمانے کی ہنسی سے کچھ نہیں ہوتا
محبت بد گماں ہو جائے تو زندہ نہیں رہتی
اثر دل پر تمہاری بے رخی سے کچھ نہیں ہوتا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |