خدا نے کس شہر اندر ہمن کو لائے ڈالا ہے
خدا نے کس شہر اندر ہمن کو لائے ڈالا ہے
نہ دلبر ہے نہ ساقی ہے نہ شیشہ ہے نہ پیالہ ہے
پیا کے ناؤں کی سمرن کیا چاہوں کروں کس سیں
نہ تسبیح ہے نہ سمرن ہے نہ کنٹھی ہے نہ مالا ہے
خوباں کے باغ میں رونق ہوئے تو کس طرح یاراں
نہ دونا ہے نہ مروا ہے نہ سوسن ہے نہ لالا ہے
پیاں کے ناؤں عاشق کوں قتل عجب دیکھے
نہ برچھی ہے نہ کرچھی ہے نہ خنجر ہے نہ بھالا ہے
برہمنؔ واسطے اشنان کے پھرتا ہے بگیاں سیں
نہ گنگا ہے نہ جمنا ہے نہ ندی ہے نہ نالہ ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |