خرد فریب نظاروں کی کوئی بات کرو
خرد فریب نظاروں کی کوئی بات کرو
جنوں نواز بہاروں کی کوئی بات کرو
کسی کی وعدہ خلافی کا ذکر خوب نہیں
مرے رفیق ستاروں کی کوئی بات کرو
زمانہ ساز زمانے کی بات رہنے دو
خلوص دوست کے ماروں کی کوئی بات کرو
گھٹا کی اوٹ سے چھپ کر جو دیکھتے تھے ہمیں
انہیں شریر ستاروں کی کوئی بات کرو
زمانہ ذکر حوادث سے کانپ اٹھتا ہے
سکوں بہ دوش کناروں کی کوئی بات کرو
نہیں ہے حد نظر تک وجود ساحل کا
فضا مہیب ہے دھاروں کی کوئی بات کرو
سلام شوق لیے تھے کسی نے جن سے شکیبؔ
انہیں لطیف اشاروں کی کوئی بات کرو
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |