خرقہ پوشی میں خود نمائی ہے

خرقہ پوشی میں خود نمائی ہے
by داؤد اورنگ آبادی

خرقہ پوشی میں خود نمائی ہے
ہاتھ بس کاسۂ گدائی ہے

بوریا بھی نہیں اسے درکار
جس کے تئیں شوق بے ریائی ہے

گل سب ہنستے ہیں بزم گلشن میں
عشق بلبل مگر ریائی ہے

جلد جاتی ہے آسماں اوپر
آہ میری عجب ہوائی ہے

شمع مینا کے نور سوں ساقی
محفل دل میں روشنائی ہے

ہر گھڑی دیکھتا ہے درپن کوں
شوخ میں طرز خود نمائی ہے

جب سوں دیکھا ہوں اس کی زلف دراز
تب سوں مجھ فکر میں رسائی ہے

کاں یو دیکھا ہے خواب میں مخمل
تجھ کف پا میں جو صفائی ہے

کیوں نہ ہوئے ماہ نو مثال عزیز
جس منے رسم کم نمائی ہے

دست گل رو میں پہنچنے داؤدؔ
کاغذ خط مرا حنائی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse