خطبہ صدارت انڈین اورینٹل کانفرنس، بڑودہ

خطبہ صدارت انڈین اورینٹل کانفرنس، بڑودہ
by مولوی عبد الحق
319575خطبہ صدارت انڈین اورینٹل کانفرنس، بڑودہمولوی عبد الحق

(یہ خطبہ صدارت انڈین اورینٹل کانفرنس منعقدہ بڑودہ (دسمبر ۱۹۳۴ء) میں بحیثیت صدر شعبۂ اردو پڑھا گیا۔)

حضرات!سارے ہندستان میں زبانوں کا ایک نسا جال پھیلا ہوا ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں اتنی زبانیں نہیں بولی جاتیں جتنی ہمارے دیس میں۔ اتر والا دکھن میں اور دکھن والا پورب اور پچھم میں ایسا ہی اجنبی ہے جیسا کوئی ہندستانی افریقہ کے کسی خطے میں۔ ندرت کے خیال سے اگر کوئی اس پر فخر کرے تو شاید بے جا نہ ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں یہ بھی ملک کی ایک بڑی بدنصیبی ہے۔قومی اتحاد کے مستحکم کرنے اور قوموں کے بنانے میں زبان کابھی حصہ ہے۔ جہاں زبانیں اس کثرت سے ہوں جتنی یہاں ہیں، وہاں خیالات کی اشاعت اور باہمی اتحاد میں ضرور مشکل پیش آتی ہے اور یہ مشکل اس وقت ہمارے سامنے بھی ہے۔ لیکن اس افراتفری میں امید کی ایک جھلکی اس میں نظر آتی ہے کہ انہیں زبانوں میں ایک ایسی بھی ہے جو ملک کے مختلف حصوں میں بولی جاتی اور اکثر حصوں میں سمجھی جاتی ہے اور اس کے بولنے والوں کی تعداد بھی اس قدر کثیر ہے کہ ہندستان کی کسی اور زبان کو نصیب نہیں۔ اسے اب آپ اردو کہیے یا ہندستانی۔ زبان کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ اس کی کوئی قوم اور ذات ہوتی ہے۔ اردو کی سرشت اور ساخت اس قسم کی ہے اور اس کی نشوونما اس ڈھنگ سے ہوئی ہے کہ وہ بلا لحاظ قوم و ملت تقریباً سارے ہندستان کی زبان ہے یا ہو سکتی ہے۔اردو مشترکہ زبان ہےیوں تو دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں جس میں غیر زبانوں کے لفظ نہ پائے جاتے ہوں کیونکہ کوئی قوم دنیا میں بالکل الگ تھلگ نہیں رہ سکتی، دوسری قوموں کے میل جول سے لامحالہ کچھ نہ کچھ لفظ ان کی زبان کے آ ہی جاتے ہیں، لیکن قطع نظر اس کے بعض زبانیں ایسی ہیں جو دوسری زبانوں کے اثر اور میل سے کھچڑی بن گئی ہیں۔ یہ مخلوط زبانیں کہلاتی ہیں۔ ایک زمانے تک علمائے لسانیات کو مخلوط زبانوں کے وجود سے انکار رہا لیکن مابعد کی تحقیقات نے قطعی طور سے ثابت کر دیا ہے کہ ایسی زبانیں موجود ہیں۔ انہیں میں ہماری زبان اردو کا شمار ہے۔ خود ریختہ کا لفظ جو پہلے اردو کا معروف نام تھا، اس خیال کی تائید کرتا ہے۔مخلوط زبان کے وجود میں آنے کے متعدد اسباب ہوتے ہیں۔ منجملہ ان کے ایک کشور کشائی ہے، یعنی ایک ملک یا قوم کا دوسرے ملک یا قوم کو فتح کرنا۔ ہماری مخلوط زبان کا ابتدائی تعلق اسی سے ہے۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو جیسے آریاؤں کا ہندستان میں آنا کہ وہ بالکل یہاں منتقل ہو گئے یاان کے مختلف قبائل فاتح کی حیثیت سے آگے پیچھے مسلسل طور پر یہاں آکر بس گئے۔ دیسیوں کو یاتو مار بھگایا، غلام بنا لیایا اپنے میں جذب کر لیا۔ ملک کے بڑے حصے پر انہیں کی زبان چھا گئی اور بعد میں اس سے بگڑ بگڑ اکر یا خلط ملط ہوکر دوسری پراکرتیں پیدا ہو گئیں۔ یا جیسے اہل یورپ کا امریکہ یا آسٹریلیا پر مسلط ہو جانا، جہاں انہیں کی زبان کا بول بالا ہے اور سب ایک ہی زبان بولتے اور پڑھتے لکھتے ہیں۔دوسری صورت مسلمانوں کی آمد کی ہے، وہ بھی آریاؤں کی طرح فاتح کی حیثیت سے آئے۔ ان کی تعداد اہل ملک کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ وہ فارسی بولتے تھے اور اہل ملک ہندی۔ ان حالات میں جیسا کہ دستور ہے کاروباری، ملکی اور معاشرتی ضرورت سے مسلمان بول چال میں ہندی الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کرتے تھے اور ہندو فارسی الفاظ۔ کچھ عرصے تک تو مسلمانوں کا تعلق اپنے اصلی ملک سے رہالیکن رفتہ رفتہ یہ تعلق کم ہوتا گیا اور وہ یہیں کے ہو گئے۔ اس تعلق کے استقلال کے ساتھ اس زبان کو بھی استقلال ہو گیا۔ اگر چہ سرکاری درباری زبان فارسی تھی اور مسلمانوں کی تعلیمی زبان بھی یہی تھی لیکن نوکر چاکروں، بیوی بچوں اور ملک کے دوسرے لوگوں سے جو اس زبان سے واقف نہ تھے، انہیں ٹوٹی پھوٹی ہندی ہی میں باتیں کرنی پڑتی تھیں۔ادھر اہل ملک کی ایک بڑی تعداد ایسی تھی جس کا تعلق دفاتر اور دربار اور امرا وغیرہ سے تھااور بہت سے ایسے تھے جو حلقۂ اسلام میں آ گئے تھے۔ وہ سب فارسی جانتے اور بولتے تھے لیکن اصل زبان ان سب کی ہندی ہی تھی۔ اس لیے اس مخلوط زبان کو بہت زیادہ تقویت پہنچی اور دن بدن فروغ ہوتا گیا۔ ایک عالم لسانیات Prof. Windisch کا قول ہے اور بہت صحیح ہے کہ ’’غیر زبان جو کسی قوم کو سیکھنی پڑتی ہے مخلوط نہیں بنتی بلکہ اس کی اپنی زبان غیر زبان کے اثر سے مخلوط بن جاتی ہے۔‘‘ بعینہٖ یہی حال مسلمانوں کے آنے کے بعد اس ملک میں ہوا۔ فارسی مخلوط نہیں ہوئی بلکہ ہندی فارسی سے مخلوط ہوکر ایک نئی زبان بن گئی اور ہندی میں فارسی مخلوط کرنے والے اہل ہند تھے۔جب کبھی ہم غیر زبان کے سیکھنے یا بولنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ہماری ا پنی زبان کا کوئی لفظ نہ آنے پائے۔ ہماری کوشش ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہم اس زبان (یعنی غیر زبان) کو صحیح اور فصیح بولیں اور اس بات کی سخت احتیاط کرتے ہیں کہ ہماری گفتگو میں ہماری زبان کے الفاظ یا طرز اداکاشائبہ نہ پایا جائے۔ مگر غیر زبان کے بولنے میں ہم جس بات سے اس قدر پرہیز کرتے ہیں، اس کا ہم اپنی زبان میں خیال نہیں کرتے۔ مثلاً انگریزی کا آج کل ہمارے ہاں عام رواج ہے۔جب کوئی ہندوستانی انگریزی بولتا ہے تو اپنی گفتگو میں حتی الامکان کبھی اپنی زبان کا لفظ نہیں آنے دیتا اور جہاں تک ہو سکتا ہے، اہل زبان کی تقلید کرتا ہے اور یہی نہیں بلکہ انگریزی لب و لہجہ کی نقل اتارنے کی کوشش کرتا ہے۔ برخلاف اس کے اپنی زبان میں گفتگو کرتے وقت بیسیوں انگریزی لفظ بلا تکلف استعمال کر جاتا ہے۔ یاتواس سے اپنی مشیخت اور علمی فضیلت جتانی مقصود ہوتی ہے یا پھر وہ ناواقفیت یا کاہلی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے۔ کاہلی ان معنوں میں کہ اسے اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ اپنی زبان میں ان کے مترادف الفاظ تلاش کرے۔ اس میں وہ کسی قدر مجبور بھی ہے۔فاتح قوم کی زبان کے مطالعہ، لکھنے، بولنے اور سننے سے معمولی اور عام ضرورت کے لفظ بھی اس کی زبان پر اس طرح چڑھ جاتے ہیں کہ بلاارادہ بھی اپنی زبان میں انہیں بول جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک وجہ اور بھی ہے۔ وہ بعض حالات میں غیر زبان (یعنی فاتح قوم کی زبان) کے خاص خاص الفاظ اس لیے بھی استعمال کرتا ہے کہ اس کے خیال میں (اور یہ ایک حد تک صحیح بھی ہے) ان لفظوں کے استعمال سے وہ اپنا مفہوم زیادہ خوبی اور قوت کے ساتھ سامعین کے دل نشین کر سکتا ہے۔ حالانکہ اسے علم ہے کہ ان الفاظ کے مترادف اس کی زبان میں موجود ہیں مگر وہ انہیں استعمال نہیں کرتا، اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ ان سے کلام میں وہ زور پیدا نہیں ہوتا۔آپ کو یاد ہوگا کہ تیس چالیس برس پہلے سویلزیشن، ریفارم، پولٹیکل، سیلف ریسپکٹ وغیرہ وغیرہ الفاظ ہماری زبان میں عام تھے۔ ان کے استعمال کرنے والے سب کے سب ان کے مترادف الفاظ سے ناواقف نہ تھے لیکن وہ جانتے تھے کہ اپنے الفاظ سے پورا مفہوم جو وہ چاہتے ہیں اور جو ان انگریزی الفاظ میں موجو د ہے، ادا نہ ہوگا۔ اب جو ہم ان کی جگہ اپنے لفظ استعمال کرنے لگے تو رفتہ رفتہ ان میں بھی وہی کس بل پیدا ہو گیا۔ ان سب باتوں سے غیر زبان (یافاتح قوم کی زبان) کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ فضیلت بھی کئی قسم کی ہوتی ہے لیکن طوالت کے خوف سے میں اس موضوع پر یہاں بحث نہیں کروں گا۔زبان میں وسعت کیسے ہوتی ہے؟جو عام اصول میں نے ابھی بیان کیا ہے وہ ہندستان کے اسلامی عہد میں حرف بحرف عمل میں آیا۔ ملکی تسلط کے وقت فاتح قوم کی زبان فارسی تھی۔ امرااور بادشاہ، درباراور دفتر میں رسائی کا ایک بڑا ذریعہ یہ زبان بھی تھی۔ جیسا کہ ہونا چاہیے تھا اور ہوتا آیا ہے، ہندوؤں نے فارسی سیکھنی شروع کی اور ایسی سیکھی کہ استاد ہو گئے اور ان میں سے بعض کا کلام یہاں تک مقبول ہواکہ درس میں داخل ہو گیا۔ فارسی میں ہندو تعلیم یافتہ طبقہ کی ترقی نہایت حیرت انگیز اورقابل تعریف ہے۔ فارسی کا جاننا حصول علم اور ضروریات زمانہ ہی کی خاطر نہ تھا بلکہ فارسی تہذیب و شائستگی کی علامت سمجھی جانے لگی تھی اور جیسا کہ دستور ہے، فیشن میں داخل ہو گئی تھی۔متواتر مطالعہ، انشاوشعر وسخن کی مشق، سرکاری اور دفتری نوشت وخواند کی وجہ سے اہل ملک کی طبائع میں ایسی رچ گئی تھی کہ انہوں نے فارسی لفظ ملکی زبان میں دھڑا دھڑ داخل کرنے شروع کر دیے۔ ایسے الفاظ کا داخل ہونا، جو یہاں کے لیے نئے تھے یا ملکی زبانوں میں ان کے ہم معنی دستیاب نہیں ہو سکتے تھے، کچھ بیجانہ تھا لیکن جب غیر زبان کے الفاظ کا استعمال عادت اور فیشن میں داخل ہو جاتا ہے تو پھر اس کی روک تھام مشکل ہو جاتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روز مرہ کی ضروریات کے ایسے لفظ بھی جن کے ہم معنی اپنی زبان میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں یا ان کے مفہوم اپنی زبان کے ذریعہ ذرا سے ردوبدل یا کسی اور طریقے سے بآسانی ادا ہو سکتے ہیں، زبان میں دخل ہو جاتے ہیں۔گو یہ سلسلہ ایک لحاظ سے نامناسب ہو، مگراس سے زبان میں وسعت اور شوکت پیدا ہو جاتی ہے اور ادیب کے لیے ایک وسیع اور زرخیز میدان نکل آتا ہے جس میں اسے گوناگوں خیالات کے اظہار اور تخیل کی جولانی کا موقع ملتا ہے۔ مترادفات میں سے موقع ومحل کے لحاظ سے ٹھیک لفظ کا انتخاب ادیب کا معمولی کام نہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ خیالات کی مختلف باریکیوں اور معانی کی نزاکتوں کے لیے ایک ہی مفہوم کے مختلف پہلوؤں کے واسطے متعدد الفاظ موجود ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ اہل ملک کی بدولت فارسی عربی الفاظ بے ضرورت بھی داخل ہو گئے مگر اس سے ہماری زبان کے سرمایے میں بہت بڑا اضافہ ہو گیا اور اس اختلاط نے اردو میں وسعت، شوکت اور قوت پیدا کر دی ہے۔ ہندی الفاظ دل نشینی اور اثر کے لیے اور فارسی عربی الفاظ شان و شوکت اور خاص خاص مضامین اور خیالات کے اظہار کے لیے اپنے اپنے موقع پر بڑا کام دیتے ہیں۔انگریز بھی اس ملک کے فاتح ہیں اور ان کی زبان کااثر بھی ہماری زبانوں پر بہت ہوا ہے اور ہو رہا ہے لیکن وہ ہمیشہ ہم سے الگ رہے اور آخر تک وہ فاتح اور ہم مفتوح بنے رہے۔ مسلمان بھی فاتح تھے لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد وہ یہیں کے ہو گئے اور ان کے بے تکلف میل جول اور معاشرت، ادب اور حکومت کی باہمی شرکت کی وجہ سے ان کی زبان نے ملکی زبان پر یہ اثر ڈالا کہ دونوں کے اختلاط سے ایک نئی زبان پیدا ہو گئی جو ان دونوں قوموں کے اتحاد وتہذیب کی بےنظیر یادگار ہے۔جب اردو نے اپنی جگہ بنائی اور بول چال سے نکل کر ادب میں قدم رکھا تو ابتدا، جیسا کہ اکثر زبانوں کی ہوئی ہے، شعر وسخن سے ہوئی اور اس وقت الفاظ ہی نہیں بلکہ فارسی ترکیبیں، انداز بیان، تشبیہات واستعارات اور تلمیحات یہاں تک کہ بعض صرفی نحوی صورتیں بھی خود بخود اس میں منتقل ہو گئیں۔ اس زمانے میں ہمارے اکثر شعرا فارسی اردو دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے، اس میں ہندو مسلمان دونوں شریک تھے۔ رفتہ رفتہ فارسی کازور کم ہوتا گیا اور اردو کو فروغ ہونا شروع ہوا۔ مگر اس کی ساخت ہیئت وہی رہی جو قائم ہو چکی تھی۔ جس طرح ہندوؤں نے فارسی میں امتیاز حاصل کیا تھا اسی طرح انہوں نے اردو میں بھی نام پیدا کیا جس کی شہادتوں سے ہمارا علم ادب بھرا پڑا ہے۔اردوملکی زبان ہےغرض یہ کہ یہ زبان اسی ملک میں بنی اور اسی ملک والوں نے بنائی اور انہیں کی عطا کی ہوئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مسلمان بھی ان کے ساجھی ہیں لیکن شریک غالب ہندو ہی ہیں۔ اگر اس میں فارسی عربی الفاظ اور فارسی ترکیبوں کی کثرت پائی جاتی ہے تو اس بدعت کے مرتکب بھی زیادہ تر ہندو ہی ہوئے ہیں۔ اور اب جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اردو میں عربی فاسی الفاظ اور ترکیبیں بکثرت داخل کی جا رہی ہیں تو (گستاخی معاف!) اس کا الزام بھی ہندی والوں ہی کے سر ہے۔ وہ اگر بحیثیت جماعت اس سے کنارہ کشی نہ کرتے تو یہ نوبت نہ آتی اور ان کی شرکت روک تھام کا کام دیتی اور وہی توازن قائم رہتا جو اس سے پہلے تھا۔ایک وجہ اور بھی معلوم ہوتی ہے۔ جب تک دلی اردو کا مرکز رہی، ہندی کے دل کش الفاظ اس میں برابر داخل ہوتے رہے اور اب تک دلی کے ادیبوں نے اس کی پابندی کی ہے۔ چنانچہ زمانۂ حال کے مصنفین خصوصاً آزاد، حالی، ذکاء اللہ، نذیر احمد، نیز مرزا داغ نے سینکڑوں ہزاروں ہندی لفظ جو صرف زبانوں پر تھے اور مبتذل سمجھے جاتے تھے اور جنہیں ادب میں بار نہیں ملا تھا، اس خوبی سے اپنے کلام میں استعمال کیے ہیں کہ خاصے متین اور سنجیدہ معلوم ہوتے ہیں۔ جب یہ زبان دوسرے صوبوں اور علاقو ں میں پہنچی تو وہ اس سے محروم ہو گئی اور خصوصاً انگریزی تعلیم کے اثر سے زبان میں جب نئے نئے خیالات آنے شروع ہوئے تو انہوں نے مجبوراً فارسی عربی الفاظ سے کام لینا شروع کیا۔پھر اکثر مترجموں نے جو انگریزی تعلیم یافتہ تھے اور اپنی زبان پر پوری قدرت نہ رکھتے تھے، فارسی عربی الفاظ کے سوا انگریزی الفاظ کا بھی اضافہ کیا۔ (میں اس میں مسلمانوں کو بھی بری الذمہ نہیں سمجھتا) لیکن اگر ہندی والے پہلے کی طرح شریک رہتے تو یہ افراط تفریط نہ ہونے پاتی۔ ان کی کنارہ کشی نے درحقیقت اردو زبان کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہندو برابر کے دعویدار ہیں بلکہ اس سے بھی کچھ بڑھ کر۔ یہ انہیں کی زبان ہے، اس کی ترقی و اشاعت ان پر ایسی ہی لازم ہے جیسی اوروں پر جو اسے اپنی زبان خیال کرتے ہیں۔اب صرف ایک صورت ہو سکتی ہے کہ ایک ایسی جامع اور مبسوط لغات مرتب کی جائے جس میں ہرقسم کے الفاظ جو اردو ادب اور اردو زبان میں رائج ہیں، خاص اصول کے تحت جمع کیے جائیں اور ان کے استعمال مثالوں کے ساتھ بتائے جائیں تاکہ پڑھنے والے کو معلوم ہوکہ اس خزانے میں کیسے کیسے انمول موتی موجود ہیں جو ہماری غفلت سے بیکار پڑے ہوئے ہیں اور جن کو کام میں لانے سے زبان کی رونق ہی نہیں بلکہ قوت و وقعت بھی بڑھےگی۔ اور اسی پر بس نہ کیا جائے بلکہ اس نوعیت کی متعدد اور بکثرت کتابیں تالیف کی جائیں تاکہ زبان ملک کے ہر کونے میں پہنچ جائے اور ہر شخص اس کے صحیح استعمال پر قادر ہو جائے۔کیا ہندی اردو ایک ہیں؟حضرات! آج کل اخباروں، تقریروں اور تحریروں میں یہ جملہ عام طور پر سننے او ر پڑھنے میں آتا ہے کہ ہندی اردو دونوں ایک ہیں، صرف رسم الخط کا فرق ہے۔ اس کے کہنے والے معمولی لوگ نہیں بلکہ بڑے بڑے قابل، ذمہ دار اور واجب الاحترام بزرگوں نے بھی اس کا اعادہ فرمایا ہے۔ کیا یہ قول حقیقت پر مبنی ہے؟ حقیقت پر پردہ ڈالنا جانتے ہوئے خاموش رہنا بھی اخلاقی جرم ہے۔ اس لیے اگر میں اظہار حقیقت پر مجبور ہوں تو مجھے معاف فرمایا جائےگا۔میں اس قول کے قائلین کو الزام نہیں دیتا، ممکن ہے کہ ان کے ذہن میں کوئی ایسی بات ہو جس کی بنا پر وہ اسے حقیقت سمجھتے ہوں جس کا ہمیں علم نہیں، لیکن موجودہ حالت میں میں اس کا قائل نہیں۔ یہ قول یاتو سیاسی مصالح پر مبنی ہے یا ناواقفیت پر۔ جو دونوں زبانوں سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک نہیں۔ اردو کا اخبار یا رسالہ کسی ہندی داں کے سامنے پڑھیے یا ہندی کا اخبار یا رسالہ کسی اردو داں کو سنائیے اور پھر دیکھیے کہ یہ دو زبانیں ایک ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ یہ دونوں ایک ہو سکتی تھیں، لیکن اب روز بروز ان میں اس قدر بعد پیدا ہوتا جاتا ہے کہ ان کا ایک جگہ لانا اور ایک کر دینا اختیار سے باہر ہو گیا ہے۔اس بعد کو کم کرنے کے لیے بارہا یہ کہا جاتا ہے کہ اردو والے عربی فارسی کے ثقیل الفاظ سے اور ہندی والے اسی قسم کے سنسکرت کے الفاظ سے احتراز کریں۔ یہ مشورہ بہت معقول ہے لیکن عمل کرنا دشوار ہے۔ خود مشورہ دینے والے ہی عامل نہیں تو اوروں سے کیا توقع ہو سکتی ہے۔ انصاف سے دیکھیے تو ہم نہ اردو والوں کوالزام دے سکتے ہیں نہ ہندی والوں کو۔ مغربی تعلیم اور جدید حالات وتغیرات کی رو میں ہر آن نئے نئے خیالات اور اسلوب بیان بہے چلے آ رہے ہیں۔ آخر ہم ان کو اپنی زبان میں کیوں کر ادا کریں۔ ہندی والا مجبور ہے کہ سنسکرت کے کوش الٹے پلٹے اور اردو والا عربی فارسی لغات۔ اس میں دونوں مجبور ہیں اور کوئی چارہ نہیں۔الزام تو اس وقت دیا جاتا کہ ہم نے ان کے لیے کوئی سہولت پیدا کی ہوتی اور وہ اس پر عمل نہ کرتے۔ دونوں ایک حمام میں ننگے نہا رہے ہیں، ایک کو دوسرے پر ہنسنے کا کوئی موقع نہیں۔ رہی ’’ہندوستانی‘‘ جس کا آج کل بہت غلغلہ ہے اور جس کا ذکر خیر سیاسی اور معاشرتی تقریروں اور بسااوقات تحریروں میں کیا جاتا ہے، وہ کیا ہے؟ کہاں ہے؟ اس کے لکھنے والے کون ہیں؟ اس کا تعین کبھی کسی نے کیا ہے؟ اس کا وجود سوائے معمولی بول چال اور کاروبار کے کہیں نہیں پایا جاتا۔ جب ہم ادبیات اور علم و فن کی سرحد میں قدم رکھتے ہیں تو یہ نہ ہندی میں نظر آتی ہے نہ اردو میں۔ معمولی بات چیت اور سودا سلف کی بولی ادبی اور علمی زبان نہیں ہو سکتی، خصوصاً جب وہ تحریر میں آکر جھٹ اپنا روپ بدل دیتی ہے۔ ایک فریق کے ہاتھ پڑ کر یہ ہندی ہو جاتی ہے اور دوسرے کے ہاں اردو۔اصل یہ ہے کہ اس مسئلہ پر اس نظر سے کسی نے غور ہی نہیں کیا اور نہ اب تک کوئی باقاعدہ اور متحدہ کوشش کی گئی ہے کہ کیونکر اس فرق کو مٹایا جائے اور اس زبان کو جسے ہم ہندوستانی کہتے ہیں کیونکر علم و ادب کے دربار میں پہنچایا جائے۔ میری سمجھ میں ایک تدبیر آئی ہے اور میں نے اس پر عمل بھی شروع کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہندی ادب میں اب تک جتنے عربی فارسی (یااردو) لفظ آئے ہیں یاہندی بولنے والوں کی زبان پر ہیں وہ سب جمع کیے جائیں اور اسی طرح اردو ادب میں جس قدر ہندی الفاظ استعمال ہوئے ہیں یا اردو بولنے والوں کی زبان پر ہیں وہ بھی اکٹھے کیے جائیں اور ان سب کو ملا کر ایک لغات مرتب کی جائے۔ گویا یہ اردو ہندی زبانوں کے مشترکہ الفاظ اور محاورے ہوں گے۔ یہ کتاب ایک ایسی جماعت کی خدمت میں پیش کی جائے جو دونوں فریقوں کے نمائندے ہوں، وہ اس پر غور و بحث کریں اور اگر وہ اسے مستند قرار دیں تو کتاب شایع کر دی جائے۔نیز یہ جماعت یا اس کی مقرر کی ہوئی کوئی مجلس اس امر کی مجاز کی جائے کہ ہندی اردو زبانوں میں سے جن الفاظ کی ضرورت سمجھے، اس میں اضافہ کر دے اور نئے خیال یا مفہوم کے لیے باہمی مشورے سے جدید الفاظ تجویز کرے اور ان کا اعلان مناسب طریقہ پر ملک میں کر دیا جائے۔ اگرچہ اس طرح سے اب تک کوئی زبان نہیں بنی لیکن ہمارے ملک اور ہماری زبانوں کی حالت بالکل مختلف ہے۔ علاوہ اس کے یہ کیا ضرور ہے کہ جو بات اب تک نہیں ہوئی وہ آئندہ بھی نہ ہو۔ یہ زمانہ بدعت و جدت کا ہے اور اس میں اس قسم کی بدعتیں بالکل جائز اور مستحسن ہیں۔ اگر یہ صورت عمل میں آجائے تو کچھ تعجب نہیں کہ اہل علم اور ا دیبوں کا ایک ایسا طبقہ پیدا ہو جائے جو اس مشترکہ زبان کو رواج دینے پر آمادہ ہو جائے اورا پنے قلم کے زور سے اس کی حیثیت منوالے۔اگرچہ ادیب یا شاعر پر کسی کا بس نہیں چلتا، اور کسی کا کیا وہ خود اپنے بس میں نہیں ہوتا، تاہم یہ کوشش اس کی بہت کچھ رہنمائی کرےگی، اور کچھ نہیں تو کم سے کم اس فرق کے کم کرنے میں بہت کام دےگی جو روز بروز بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اور اگر چند اخبار اور رسالے اس زبان میں نکالنے شروع کر دیے جائیں تو ممکن ہے کہ اس کے رائج ہونے میں آسانی پیدا ہو جائے۔ اگر یہ صورت قابل عمل خیال نہ کی جائے تو پھر ان دونوں زبانوں کو اپنے اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ باہمی رقابت اور مخالفت کی کوئی وجہ نہیں۔ ہندی کی اشاعت سے ہندی سیکھنے والے اردو سے اور اردو سیکھنے والے ہندی سے زیادہ قریب ہو جائیں گے کیونکہ ہندستان کی کوئی دوز بانیں باہم اتنی قریب نہیں جتنی ہندی اردو۔ اسی کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی شخص اردو زبان کا اعلیٰ ادیب اور محقق نہیں ہو سکتا، جب تک ہندی نہ جانے اور اس طرح ہندی کا ادیب اور محقق ہونے کے لیے اردو کا جاننا لازم ہے۔ ان دو زبانوں کا بلا مبالغہ اور اصلی معنوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے اور اس لیے ایک دوسرے کی مخالفت لاحاصل ہی نہیں بلکہ مضر ہے۔رسم الخط کا مسئلہرہا رسم الخط کامسئلہ، تو اس کا حل بھی اسی وقت ممکن ہے جب کہ وہ صورت قابل عمل ہو جس کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے۔ اور یہ مسئلہ کچھ ہندی اردو ہی سے مخصوص نہیں بلکہ ہندستان کی تمام زبانوں سے متعلق ہے۔ اگر یہ جھگڑا چک جائے اور ہماری زبانوں کے حروف ایک ہو جائیں، خواہ وہ رومن ہی کیوں نہ ہوں، تو ہمیں ایک دوسرے کی زبان سیکھنے میں بے حد سہولت ہو جائےگی اور وہ ابتدائی دشواری جو آخر تک قائم رہتی ہے، خود بخود اٹھ جائےگی اور ہم ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہو جائیں گے۔ دوسرے کی زبان سیکھنے سے خود ہماری زبان پر نیز ہمارے دلوں پر اثر پڑتا ہے اور زبان کے ساتھ زبان والوں کی طرف سے دلوں میں انس اور ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک زمانہ آئےگا جب یہ مسئلہ اس قدر دشوار نہیں رہےگا جیسا کہ اب معلوم ہوتا ہے۔اردو زبان کا موجودہ رخماضی سے گزر کر ہمیں حال کی طرف دیکھنا چاہیے کہ اس پچیس تیس سال میں ہماری زبان کا رخ کس جانب ہے۔ دور کے ڈھول سہانے معلوم ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات دور کی بھونڈی چیزیں بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ انسان کسی قدر قدامت پسند واقع ہوا ہے، گزشتہ میں اسے وہ خوبیاں نظر آتی ہیں جو قریب ہونے کی وجہ سے حال میں نہیں دکھائی دیتیں۔ لیکن حال سے غفلت کرنا اپنے مستقبل سے غفلت کرنا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہم میں اس وقت سر سید، آزاد، نذیر احمد، حالی اور شبلی جیسے انقلاب انگیز مصنف نہیں ہیں لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ انہیں غریب مزدوروں میں سے جو قصر ادب کے لیے اینٹ چونا تیار کر رہے ہیں، ویسے ہی یا ان سے بڑھ کر معمار پیدا نہیں ہوں گے۔ اور یہ کیا ضرور ہے کہ حال کی رفتار اسی کینڈے کی ہو جو پہلے تھی۔ادب صناعی ہے۔ صناعی میں (برخلاف فطرت) اعادہ محال ہے۔ کسی شاعر میں کتنا ہی سوزوگداز کیوں نہ ہو، میر نہیں ہو سکتا۔ کوئی کیسا ہی بلند فکر کیوں نہ ہو، دوسرا غالب ہونا ممکن نہیں۔ بعد کے ادیب کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ یاتو اگلوں کی راہ پر پڑے، جس میں سر سبز ہونا دشوار ہے یا اپنے لیے نئی راہ نکالے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب کی راہ ہمیشہ صاف اور سیدھی نہیں ہوتی، اس میں بہت سے پیچ و خم ہوتے ہیں۔ اسی لیے اس کے جانچنے کے لیے ہر کونے کھدرے پر نظر دوڑانی چاہیے۔ چنانچہ اس زمانے میں بعض ایسی خصوصیات نظر آتی ہیں جو پہلے نہیں تھیں اور تھیں تو بہت کم۔ مثلاً چھوٹے فسانے لکھنے کا آج کل عام رواج پایا جاتا ہے۔ اگر چہ اس وقت سوائے منشی پریم چند کے جن کے بعض فسانے درحقیقت بے نظیر ہیں، کوئی ایسا نظر نہیں آتاجس میں وہ جدت ہو لیکن ان لکھنے والوں میں بعض بہت ہونہار ہیں جن سے توقع ہے کہ آگے چل کر نام پیدا کریں گے۔دوسری چیز ادبی تنقید ہے جس کی ابتدا مولوی حالی نے کی اور اب اس فن پر متعدد لکھنے والے پیدا ہو گئے ہیں، جن میں سے بعض اپنی زبان کی بڑی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ زیادہ تر مغربی تعلیم کا اثر ہے اور کم و بیش مغربی اصول پر کام ہو رہا ہے۔ شاید اسی کانفرنس میں بعض تنقیدی مقالے پیش کیے جائیں۔ اس وقت بھی ہم میں ایسے قابل نقاد موجود ہیں جیسے پروفیسر شیرانی یا اور لوگ جنہیں ابھی شہرت حاصل نہیں ہوئی یا جو فی الحال اپنے کام میں مصروف ہیں جو حال کے ادب میں اپنی قابل قدر یادگار چھوڑ جائیں گے۔تنقید صحیح ذوق کے لیے لازم ہے لیکن ایک نقاد کے لیے جو اس کٹھن اور صبر آزما کام میں ہاتھ ڈالتا ہے، وسیع معلومات، گہری نظر اور ذوق سلیم کی ضرورت ہے۔ صحیح تنقید مصنف اور پڑھنے والے دونوں کے لیے مفید ہے۔ ہمارے دو چار رسالے اس منصب کو انجام دے رہے ہیں، اکثر بے پروائی کے ساتھ اور کبھی کبھی مستعدی اور قابلیت سے۔ حال کے انقلابات اور تغیرات سے ہمارا ادب بھی متاثر ہوا ہے اور اس میں طرح طرح کی جدتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ ان کے جانچنے کے لیے پرانے اصول کام میں نہیں آ سکتے۔ ان نئی چیزوں کے پرکھنے کے لیے ہمیں نئے اصولوں سے کام لینا پڑےگا۔اس زمانے میں اردو زبان و ادب کے متعلق ہماری معلومات میں ایک جدید اضافہ ہوا ہے۔ بعض محققین نے بڑی محنت اور تلاش سے قدیم اردو ادب کا پتا لگایا ہے اوربہت سی ایسی بے بہا اور نایاب کتابیں ڈھونڈ نکالی ہیں جو اب تک گمنامی میں پڑی ہوئی تھیں۔ اس کی بدولت اردو زبان کی زندگی میں تقریباً تین سو سال کا اضافہ ہو گیا ہے اور اردو زبان وادب کی تاریخ کے لیے ایک نیا باب کھل گیا ہے۔ یہ جستجو جاری رہی تو بہت سی نئی چیزیں ایسی دریافت ہوں گی جن کی امداد سے تاریخ ادب کے سلسلے کی بعض کڑیاں جو اب تک نہیں ملیں، ہاتھ آ جائیں گی۔شعر و سخن میں بھی اردو زبان کسی سے پیچھے نہیں، اگر چہ اس وقت حالی ساکوئی انقلابی شاعر پیدا نہیں ہوا، سوائے ایک شخص کے جس نے حقیقت میں اردو شاعری میں جان ڈال دی تھی اور جس نے اپنی قوت کلام اور زور بیان سے زبان میں ایک نئی تازگی اور نیا جوش پیدا کر دیا تھا، لیکن اس بد نصیبی کا کیا علاج کہ اقبال اردو سے روٹھ گئے ہیں، تاہم ایسے نئے شاعر پیدا ہو رہے ہیں جن کا قدم آگے ہے اور اردو شاعری میں نیا رنگ پیدا کرکے صناعی کا حق ادا کر رہے ہیں۔زندگی کے عام حالات اور قدرت کے عجائبات سے ہماری شاعری کو جو ایک گونہ بے تعلقی سی تھی، وہ اب رفع ہو رہی ہے۔ عنقریب زمانے میں انہیں میں سے بعض ایسے خوش گو شاعر نکلیں گے جن پر اردو زبان فخر کرےگی۔ میں چاہتاتھا کہ چند نام پیش کروں لیکن ابھی ان کے متعلق صحیح رائے دینے کا وقت نہیں آیا، بعض ان میں سے ایسے ہیں جو ابھی ابھر رہے ہیں، اگر انہیں چھوڑ دوں تو ناانصافی ہوگی اور اگر نام لوں تو قبل از وقت ہوگا۔ لیکن وہ وقت دور نہیں جب ان کے نام پیش کرنے میں کوئی تامل نہ ہوگا۔تالیف و ترجمہ میں بھی ترقی کے آثار نظر آرہے ہیں۔ بعض صاحب ذوق ذی علم محض اپنے شوق سے اس کام کوانجام دے رہے ہیں، ان میں خاص کر اہل پنجاب اور عثمانیہ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ نوجوان قابل تعریف ہیں جو ادب اور علوم و فنون کے مختلف شعبوں میں تالیف و ترجمہ کر رہے ہیں۔ تالیف و تصنیف کا پایہ ابھی ہماری زبان میں بلند نہیں ہے۔ ہم اس عہد کی (جو نوجوانوں کا عہد ہے) کوئی ایسی بلند پایہ تالیف یا تصنیف نہیں پاتے جسے دوسری زبانوں کے مقابلے میں دعوے سے پیش کر سکیں۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ شوق بڑھ رہا ہے اور تعداد بھی بڑھ رہی ہے اور یہ بہت اچھے آثار ہیں۔ترجمے کو بعض اوقات حقارت سے دیکھا جاتا ہے لیکن ترجمہ کوئی معمولی کا م نہیں ہے، اس میں اسی قدر جان کا ہی اور سردردی کرنی پڑتی ہے جتنی نئی تالیف یا تصنیف میں۔ ترجمے میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جو مضمون پر حاوی ہونے کے علاوہ دونوں زبانوں میں کامل دسترس رکھتا ہو، ادب کی نزاکتوں سے واقف ہو اور اصل مصنف کے صحیح مفہوم کو اپنی زبان میں اسی قوت سے بیان کر سکے۔ یہ آسان کام نہیں اور ہر ایک کا کام نہیں۔ ترجموں سے زبانوں کو بہت فائدہ پہنچاہے۔ یہی نہیں کہ ہمارے علم اور معلومات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ خود زبان بھی اس سے متمتع ہوتی ہے۔ ایک اعلیٰ درجے کی تصنیف کاعمدہ ترجمہ بہت سی معمولی تصنیفوں سے کہیں بڑھ کر مفید ہوتا ہے۔ وہ ادب کا جز ہو جاتا ہے۔ ہمارے ادب میں عمدہ ناولوں اور ڈراموں کی بہت کمی ہے۔ اگرچہ ان کا رواج پہلے سے زیادہ ہے لیکن ہماری زبان میں اب تک ایک بھی ایسا ناول یا ڈراما نہیں جسے ہم اعلیٰ پایہ کا کہہ سکیں۔ تصنیف تو درکنار کسی اعلی پائے کے ناول یا ڈڑامے کا عمدہ ترجمہ بھی اب تک نہیں ہوا۔ یہ امر نہایت قابل افسوس ہے۔اس سلسلے میں چند ایسے اداروں کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو تالیف و ترجمہ کے کام میں مشغول ہیں۔ ان میں ایک انجمن ترقی اردو ہے، جس نے ادب اور علوم و فنون کی کتابوں کے ترجمے اور تالیف کے علاوہ اپنے رسالۂ ’’اردو‘‘ اور مطبوعات کے ذریعے سے سب سے پہلے دسویں گیارہویں صدی ہجری کے قدیم ادب کو روشناس کرایا، جس سے ادب اردو کی تاریخ میں انقلاب پیدا ہو گیا۔ انجمن نے قدیم ادب کا بے بہا ذخیرہ فراہم کیا ہے اور یہ کام برابر جاری ہے۔ نیز قدما کا کلام اور اساتذہ کے نایاب تذکرے، جواب تک گمنامی میں تھے، شایع کیے جن کی بدولت اردو کی تاریخ اور اساتذہ کے حالات کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں رفع ہو گئیں۔ یہ کام اب بھی ہو رہا ہے۔انگریزی اردو کی کوئی اچھی ڈکشنری نہ تھی۔ جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں (اور انہیں لکھے بہت مدت ہوئی) سب ناقص، نامکمل اور موجودہ ضروریات کے لیے نامکتفی ہیں۔ انجمن نے ایک جامع اور مکمل ڈکشنری بصرف کثیر کئی سال کی مسلسل محنت کے بعد تیار کرائی، جو زیر طبع ہے۔ اس کی اشاعت سے سینکڑوں نئے یا بھولے بسرے لفظ ہماری زبان میں رائج ہو جائیں گے۔ علاوہ اس کے قدیم اردو کی لغات، قدیم کتابوں کے ایک مدت کے مطالعہ کے بعد تیار کی جا رہی ہے جو اردو زبان و ادب کے مطالعہ اور تحقیق میں بہت مدد دےگی۔ ایک ضخیم لغات پیشہ وروں کی اصطلاحات کے متعلق مرتب ہو رہی ہے، جس میں بڑی محنت اور کھکھیڑ اور بہت سی پریشانیوں کے بعد ایک سو سے زائد پیشوں کے ہزارہا لفظ جمع کیے گئے ہیں۔ انہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ہماری زبان میں اس کثرت سے اور ایسے اچھے اچھے لفظ موجود ہیں جنہیں افسوس ہم بھولتے جاتے ہیں۔انجمن نے کئی سال سے ایک رسالہ سائنس کے نام سے جاری کر رکھا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ اردو میں سائنس کے مضامین اور خیالات ادا کرنے کی کوشش کی جائے اور اردو داں طبقے میں سائنس کا ذوق پیدا کیا جائے۔ اگرچہ انجمن کو اس میں خسارہ ہے لیکن خوشی کی بات ہے کہ لوگوں میں اس کا شوق پیدا ہو چلا ہے۔دارالمصنفین اعظم گڑھ کی سرگرم جماعت اور جامعہ ملیہ کے پر خلوص ارکان بڑی مستعدی سے اردو ادب میں ترجمہ اور تالیف کے ذریعے سے بہت اچھا اضافہ کر رہے ہیں اور ان اداروں سے مختلف علوم و فنون اور ادب کے متعلق قابل قدر کتابیں شایع ہو رہی ہیں۔ الہ آباد کی ہندوستانی اکاڈیمی کی مساعی بھی اس بارے میں لایق شکرگزاری ہیں۔ وہاں سے متعدد علمی اور ادبی تالیفات اور ترجمے شایع ہو چکے ہیں۔سب سے آخر میں اس ادارے کا ذکر کرتا ہوں جو اپنی اہمیت اور حیثیت کے لحاظ سے سب سے مقدم ہے۔ یعنی عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن کا سررشتہ تالیف و ترجمہ، جو عام طور پر دارالترجمہ کے نام سے مشہور ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی اور خاص کراس سررشتے کے قیام سے اردو زبان کو بڑی تقویت پہنچی ہے بلکہ یوں سمجھنا چاہیے کہ اس کی جڑیں مضبوط ہو گئی ہیں۔ شاید ہی کوئی فن ہو کہ دار الترجمہ میں اس کی کسی کتاب کا ترجمہ نہ ہوا ہو۔ تاریخ ہند کی چند کتابوں کے علاوہ باقی سب ترجمے ہیں، لیکن اب تالیف کا بھی انتظام ہو رہا ہے۔ غرض تاریخ دستور اساسی، قانون، نفسیات، فلسفہ، طبیعات، کیمیا، اعلی ریاضی اور ان کی مختلف شاخو ں نیز ڈاکٹری، انجینیری وغیرہ وغیرہ پر کئی سو کتابیں شایع اور تیار ہو چکی ہیں، گویا اس ادارے نے علم کا دریا بہا دیا ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی دبی زبان سے اتنا کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ جو کچھ ہواہے بہت خوب ہے لیکن ہمیں اس سے زیادہ کی توقع تھی، کمیت اور کیفیت دونوں میں۔ایک اور بڑا کام اعلیٰ حضرت نظام خلد اللہ ملکہ کی منظوری سے نظام گورمنٹ کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ یہ اردو کی جامع اور محققانہ لغات ہے جو خاص اہتمام سے جدید اصول پر مرتب ہو رہی ہے۔ بخوف طوالت میں طریقۂ کار اور ان اصولوں کو اس وقت تفصیل سے بیان نہیں کر سکتا جو اس کام کے لیے اختیار کیے گئے ہیں، لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس پیمانے پر اس قدرصحت و تحقیق کے ساتھ ہمارے ملک کی کسی زبان کی لغات اب تک نہیں لکھی گئی ہے۔ اس کی منظوری بھی انجمن ترقیٔ اردو ہی کی تحریک پر ہوئی تھی۔ ایک انسائیکلوپیڈیا کی ضرورت اور رہ جاتی ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ دیر سویر اس کی بھی کوئی صورت ضرور نکل آئے گی۔کس قدر خوشی کی بات ہے کہ آج کل جس قدر اخبار اور رسالے جاری ہیں، پہلے اس کا عشر عشیر بھی نہ تھا۔ اس میں پنجاب کا نمبر سب سے اول ہے۔ ان میں برے بھلے سب ہی قسم کے ہیں، لیکن اس میں شک نہیں کہ ان کا معیار پہلے کی نسبت بہتر اور بلند ہے۔ بعض اردو رسالوں میں ادبی، علمی، تنقیدی اور تاریخی مضامین بہت تحقیق اور متانت سے لکھے جاتے ہیں اور کبھی معاملات حاضرہ پر بھی معقول بحث ہوتی ہے۔ اس زمانے میں اخبار اور رسالے علم اور معلومات کی اشاعت کا بڑا ذریعہ ہیں۔ یہ اپنے دوسرے مقاصد کے ساتھ اپنی زبان کی بہت بڑی خدمت کر سکتے ہیں۔میں کیا، کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے اخبار ایسے ہی ہیں جیسے ہونے چاہییں یا جیسے دوسرے ممالک یاہمارے ہی ملک کی دوسری زبانوں میں ہیں۔ لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ان کی حالت رو بہ ترقی ہے، ان کی تحریر میں جان ہے اور معلومات اور نظر میں پہلے سے زیادہ وسعت ہے، ظاہری صورت اور چھپائی لکھائی بھی (خاص کر روزانہ اخباروں کی) بہت بہتر ہے۔ لیکن ان صاحبوں کی (اور خاص کر پنجاب کے اڈیٹر صاحبوں کی) خدمت میں دو ایک باتیں مختصر طور پر عرض کرنے کی جرأت کرتا ہوں، امید ہے کہ وہ مجھے معاف فرمائیں گے۔اول یہ کہ بعض نامور روزانہ اخباروں میں مقالہ افتتاحیہ (لیڈنگ آرٹیکل) میں غیرضروری بلند آہنگی اور طوالت کے ساتھ اس قدر پیچیدہ، مغلق اور ثقیل الفاظ اور جملوں کی بھرمار ہوتی ہے کہ اصل مفہوم الجھ کر رہ جاتاہے۔ الفاظ زیادہ اور معنی کم۔ دوسرے آپس کی توتو میں میں اور ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنی بالکل ترک کر دی جائے۔ یہ ان کی شان کے خلاف ہے۔ تیسرے ملکی معاملات میں ذاتی عناد اور بغض و عداوت کا اظہار یا کسی کی ذات پر عامیانہ اور سوقیانہ حملے بالکل ناجائز ہیں۔ چوتھے ان کی رائے کچھ ہی ہو، مخالف کے بیان کو کبھی مسخ کرنے کی کوشش نہ کی جائے اور جہاں تک ممکن ہو، صداقت اور ایمانداری سے ظاہر کیا جائے۔ پانچویں پراپیگنڈے کی رومیں صداقت اور متانت کو ہاتھ سے نہ دینا چاہیے۔ہمیں ایک یا کئی ایسے ہفتہ وار اخباروں کی بھی ضرورت ہے جو روزانہ اخبار کی خبروں کو صحیح معلومات کے ساتھ اس طرح بیان کریں کہ ان میں کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے اور پڑھنے والا کامل طور پر انہیں سمجھ لے۔ معاملات حاضرہ مثلاً مسائل سیاسیات ومعاشیات پر نہایت محنت اور غور کے ساتھ ایسے مضامین لکھیں یاماہرین سے لکھوائیں کہ پڑھنے والا مسئلہ کے ہر پہلو کو پورے طور پر سمجھ جائے اور سمجھنے کے بعد اسے غور و فکر کرنے کا موقع ملے۔ خبروں کو سلیقے کے ساتھ درج کریں اور ان کے متعلق جن ضروری معلومات کی ضرورت ہے انہیں بیان کر دیں۔جتھے بندی سے بالا بالاہوں۔ مختلف ملتوں یا فریقوں کے لڑانے کی کوشش نہ کریں بلکہ ان کے نقطۂ نظر کو صفائی اور سچائی سے بیان کریں اور اپنی رائے کو کسی پر حملہ کیے بغیر آزاد انہ اور بے باکانہ ظاہر کرنے میں دریغ نہ کریں۔ بے لاگ رہیں مگر ناگواری پیدانہ ہونے دیں۔ کبھی کبھی اپنی زبان اورادب کے متعلق ملک میں جو کام ہو رہا ہے، اس پر بھی بحث کرتے رہیں۔ طرز تحریر میں متانت، سلاست اور شگفتگی ہمیشہ مد نظر رہے۔ ایسے اخبارات سے اردوداں طبقے کو خبروں کی بہم رسانی کے علاوہ تعلیمی فائدہ بھی پہنچےگا اور ان کے علم اور معلومات میں اضافہ ہوتا رہےگا۔ ممکن ہے کہ شروع میں ایسے اخبار کی بکری کم ہو لیکن کچھ مدت کے بعد اسے ضرور فروغ ہوگا۔یہ بھی کچھ کم مسرت کی بات نہیں ہے کہ ہندستان کی متعدد یونیورسٹیوں میں اردو کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام ہو گیا ہے اور ہماری یہ توقع کچھ بے جانہ ہوگی کہ ان یونیورسٹیوں سے جو نوجوان تعلیم پاکر نکلیں گے وہ یونیورسٹیوں کے معلمین کے حیثیت سے یابحیثیت انشا پرداز اور ادیب کے اپنی زبان کی خدمت بجا طور پر انجام دیں گے۔اس ضمن میں میں ایک اور بات بیان کرنا چاہتا ہوں جسے بیان کرتے ہوئے مجھے کسی قدر حجاب معلوم ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ آج کل یورپ کی ڈگریوں کووہ غیر معمولی عظمت حاصل ہوگئی ہے کہ ہماری زبانوں کی اعلیٰ ڈگریاں بھی وہیں سے حاصل کی جاتی ہیں۔ میں عربی فارسی سنسکرت کے متعلق کچھ نہیں کہتا، غالباً ان کا سامان وہاں یہاں سے زیادہ ہوگا لیکن اردو کی ڈگری وہاں سے حاصل کرنا اور ایسے فضلا سے سند لینا جو خود ہماری زبان وادب سے بے بہرہ ہیں، مجھے مضحکہ معلوم ہوتا ہے۔ میں ان حضرات کو کیٹلاگی محقق کہتاہوں۔ ان کا علم زیادہ تران کیٹلاگوں (فہرستوں) پر مبنی ہوتا ہے جو یورپ کے علما نے مرتب کر دی ہیں۔ وہ سوائے کتاب کے متعلق ہرقسم کاعلم رکھتے ہیں۔ وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ اس کتاب کا مصنف کون ہے، کس زمانے میں ہوا ہے، سنہ وفات کیا ہے، اس کے معاصر کون تھے، اس کی تصانیف کون کون سی تھیں، اس کے مآخذ کیا کیا ہیں، اس کے مختلف نسخے کس کس کتب خانے میں ہیں، ان کے سنین کتابت کیا ہیں اور ان نسخوں میں کیا کیا اختلاف ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب وہی کتابیں کھول کر ان کے سامنے رکھی جاتی ہیں تو ان کے سمجھنے اور بعض اوقات صحیح پڑھنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ تحقیق کا ڈھنگ وہیں آتا ہے۔ ہم نے وہ مقالے (تھیسس) بھی دیکھے ہیں جو وہاں سے لکھے ہوئے آئے ہیں۔ ہمارے بعض مستعد طلبہ، معلمین اور پروفیسروں نے گھر بیٹھے ان سے کہیں بہتر اور زیادہ محققانہ مقالے لکھے ہیں۔ اس کا دوش میں ان کو نہیں دیتاجو یورپ جاکر یہ ڈگریاں لائے ہیں، بلکہ اس میں سراسر قصور ان یونیورسٹیوں کا ہے جو ڈگری دیکھتی ہیں اور کام نہیں دیکھتیں اور غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے بلاامتیاز ہر ڈگری کے کاغذ کو سند فضیلت خیال کرتی ہیں۔ اردو کی اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کا انتظام یہاں کہیں بہتر ہو سکتا ہے اور یہاں اس کے لیے کہیں زیادہ سامان موجود ہے۔ کیا مسلم یونیورسٹی یا جامعۂ عثمانیہ اس کا انتظام نہیں کر سکتی؟ بجائے اس کے کہ ہم وہاں جاکر اپنی زبانوں کی نمائشی سندیں حاصل کریں، ہمیں خود یہاں کام کرکے حقیقی سند حاصل کرنی چاہیے اور اس کا انتظام ایسا مکمل اور بہتر ہونا چاہیے کہ اہل یورپ بھی اس کا لوہامان جائیں اور ضرورت ہوتو وہ یہاں آکر ہماری زبانوں کی سند حاصل کریں۔ یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں جتنا کہ خیال کیا جاتا ہے۔حضرات! افسوس ہے کہ مجھے آپ کے سامنے کئی ناگوار باتیں کہنی پڑیں لیکن ایک بات اور کہنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ انہیں چند دنوں میں مجھے بعض ایسی تحریریں پڑھنے کا اتفاق ہواجنہیں دیکھ کر ملال ہوتا ہے۔ پنجاب کے ایک رسالے کے قابل اڈیٹر کو کسی غیرمعروف شخص نے یوپی کے کسی مقام سے شاید رسالے کی بعض غلطیوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اس پر اڈیٹر صاحب نے نہایت تلخ و ترش لہجے میں غم و غصہ کا اظہار فرمایا ہے اور سارے صوبے اور اس کے اہل زبان کی خبر لے ڈالی اور اس پر بس نہیں کی بلکہ دکن کی بعض علمی تحریکوں اور کارناموں کے حال پر بھی نوازش فرمائی ہے۔اس کے بعد ہی مجھے ایک لایق تعلیم یافتہ کا لکچر ملا جو انہوں نے جنوبی ہند کی ایک کانفرنس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے سامنے پڑھا تھا۔ اس کی ابتدا بھی اسی الاپ سے کی ہے۔ چند ہی روز ہوئے میرے پاس دو کتابیں پہنچیں، جن میں ایک قابل ادیب اور شاعر اور نقاد نے بے ضرورت اور بلاوجہ اس مضمون کو چھیڑ کر جلی کٹی سنائی ہیں۔ یہ حالت قابل افسوس ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے، یوپی کے کسے معقول پسند اور مستند شخص نے کبھی پنجاب یا دکن کے علمی کاموں کی تحقیر نہیں کی بلکہ ایسے تمام صاحبوں نے ہمیشہ ان کے علمی اور ادبی کارناموں کی دل کھول کر داد دی ہے۔ اور اگر تنقید کرتے وقت کسی نے کچھ لکھ دیا یابعض غلطیاں جتائیں تو اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے۔ کیا خود ان کے ہم وطن ان کی تنقید کرتے وقت کچھ کمی کرتے ہیں۔ کیا یوپی کے اہل زبان نے اپنے ادیبوں اور شاعروں پر نکتہ چینی نہیں کی؟ کون سا ایسا ادیب اور شاعر ہے جو اس سے بچ رہا ہو۔جب میر اور سودا اور غالب تک نہیں بچے تو دوسرا کس منہ سے شکایت کر سکتا ہے۔ آزاد مرحوم باربار مصحفی کے امروہہ پن پر طعن کرتے ہیں۔ یہ کب نہیں ہوا اور کہاں نہیں ہوا؟ پہلے مشاعروں میں رودرو اعتراض ہوتے تھے، اب اخباروں اور رسالوں میں ہوتے ہیں۔ جب مسدس حالی شایع ہوا تو کیا کچھ طوفان نہیں برپا ہوا۔ کئی مسدس اس کے جواب اور رد میں لکھے گئے۔ اور یہ تو آپ میں سے بعض صاحبوں کو یاد ہوگا کہ مقدمۂ شعر و شاعری کی اشاعت پر کس قدر اعتراضوں کی بوچھاڑ ہوئی۔ ایک اخبار نے تو مسلسل بیس تیس مضامین لکھے جن میں کتاب او ر مصنف دونوں کا مضحکہ اڑایا تھا۔ مولانا حالی نے نہ کبھی جواب دیا اور نہ برا مانا۔ یہ باتیں جواب دینے یاغم و غصہ کے اظہار کی نہیں، اس سے اپنی کمزوری کا اظہار ہوتا ہے۔ اسے صوبہ واری رشک و حسد یا سیاست اور تجارت کی طرح رقابت و مخالفت کا اکھاڑا نہیں بنانا چاہیے۔ اس میں سب کا نقصان ہے۔ ہم سب اپنی زبان کے خادم ہیں۔ ہمیں اتحاد عمل کی ضرورت ہے۔میں شروع ہی میں عرض کرچکا ہوں کہ زبان ذات پات، قومیت، وطنیت سے بری ہے۔ جو اسے بولتا ہے اسی کی زبان ہے۔ جو زیادہ صحت اور فصاحت کے ساتھ لکھتا بولتا ہے، وہی زیادہ تر زبان داں اور اہل زبان کہلانے کا مستحق ہے۔ اس میں نہ کسی صوبے کی تخصیص ہے اور نہ کسی قوم اور نسل کی۔ انجمن ترقیٔ اردو یہ تجویز کر رہی ہے کہ جوادارے مختلف مقامات میں اردو زبان کی خدمت انجام دے رہے ہیں، ان کے نمایندے اور خاص خاص ایسے لوگ جنہیں زبان سے ہمدردی ہے اور علم و فضل اور تجربہ رکھتے ہیں ایک جگہ جمع ہوں، زبان کے مسائل پر غور کریں، اپنے کاموں کا جائزہ لیں، آیندہ کے لیے پروگرام بنائیں اور ان پیچیدگیوں اور خرابیوں کے رفع کرنے کی کوشش کریں جو اس کی ترقی میں حائل ہیں۔ اس طریق کار سے عمل میں نیز آپس میں اتحاد کی شکل پیدا ہو جائےگی۔ میں حال ہی میں مدراس گیا تھا، وہاں مجھے اردو زبان کے متعلق بعض مقامی حالات ایسے معلوم ہوئے جن کا کبھی علم نہ تھا، مجھے اپنی بے خبری پر بہت افسوس ہوا، ممکن ہے کہ اسی طرح ہم میں سے اکثر اسی بے خبری میں مبتلا ہوں۔ یہ بے خبری ہماری زبان کے حق میں بہت مضر ہے۔ اس لیے مجھے خیال ہواکہ جہاں تک جلد ممکن ہو، ہمیں ہر صوبے کی اصل حقیقت سے آگاہ ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔اس خیال کے آتے ہی میں اس ادھیڑبن میں لگ گیا اور ایک فہرست ایسے استفسارات کی مرتب کی جو تقریباً تمام حالات پر حاوی ہیں۔ تجویز یہ ہے کہ یہ فہرست ایک مختصر کمیٹی کے سامنے پیش کی جائے اور ان کے مشورے اور منظوری کے بعد ہر صوبے اور علاقے کے بعض ایسے اصحاب کے پاس بھیجی جائے جو اس کام سے ہمدردی اور اپنے صوبے کے حالات سے واقفیت رکھتے ہیں تاکہ وہ غور کرنے کے بعد اس کے جواب تیار کریں۔ اس کے بعد کمیٹی کے چند ارکان یعنی کم سے کم تین شخص ہر صوبے اور علاقے میں جاکر مقامی حالات کا معائنہ کریں اور وہاں کے واقف کار حضرات سے مل کر ان مسائل پر گفتگو کریں۔ غرض اس طرح ہر مقام سے معلومات کا ذخیرہ جمع کریں او رآخر میں ایک مفصل رپورٹ تیار کریں۔ یہ رپوٹ اتحاد عمل اور آئندہ مختلف مقامات میں کام کرنے کے لیے بنیاد کا کام دےگی۔ ابھی تک نہ ہم اصل حقیقت سے واقف ہیں اور نہ ضرورتوں سے۔اس رپوٹ کے بعد ہم یہ طے کر سکیں گے کہ ہر صوبے میں کس نہج پر کام کیا جائے۔ یہ ایک بہت ہی سرسری سا خاکہ ہے۔ تفصیل کا یہ وقت نہیں۔ اس میں کئی امور ایسے ہیں جو قابل غور ہیں اور جن کے طے کیے بغیر کام شروع کرنا ممکن نہیں۔ مثلاً ایک مسئلہ اخراجات کا ہی ہے جو سب میں دشوار ہے۔ بہرحال ان سب مسائل پر غور کرنے کے بعد اس کا م کی ابتدا ہو سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کام کی خاص اہمیت دیکھ کر ہمارے اہل علم اور اہل ثروت ہمیں ضرور اس میں مدد دیں گے۔حضرات! ہمیں اس بات پر نہ پھولنا چاہیے کہ اردو ہندستان کی عام زبان ہے، تقریباًہر صوبے میں بولی یا سمجھی جاتی ہے اور ہر قوم و ملت کے لوگ اسے بولتے یا سمجھتے ہیں، بلکہ ہندستان سے باہر بھی اپنا تسلط جماتی جاتی ہے اور سواحل عرب، مکہ، مدینہ، بغداد و دمشق، افغانستان، افریقہ کے بعض علاقوں وغیرہ میں بھی اس کے بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں۔ جب تک اس میں وسعت کے ساتھ گہرائی نہ ہو، جب تک اس کی بنیادیں مضبوط نہ ہوں اور جب تک یہ علمی زبان نہ بنے اس وقت تک یہ سب فخر بے جاہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس زبان میں وسعت ہے اور اس میں لوچ اور جذب کرنے کی قوت اور آگے بڑھنے کی صلاحیت موجود ہے، لیکن یہ خوبیاں اسی وقت کام آ سکتی ہیں کہ ہم ان سے کام لیں اور زبان کو مستحکم اور مکمل بنانے پر آمادہ ہو جائیں۔بعض اہل سائنس کا قول ہے کہ آیندہ انسان جیسا چاہےگا ویسا بن جائےگا۔ میں اس قول کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتا لیکن زبان کے متعلق بہ وثوق کہہ سکتا ہوں کہ جیسا ہم نے چاہا ویسی بنی اور جیسا ہم چاہیں گے ویسی بنےگی۔ اپنی زبان پر فخر کر کر کے دوسروں کو چنوتی (چیلنج) دینا اور اپنی فوقیت جتانا فعل عبث ہے۔ اسے ایسا مکمل اور کامل بناؤ کہ دوسرے خود اس کی طرف جھک جائیں اور اس کی افضلیت مان جائیں۔ یہ ہماری ہمت پر موقوف ہے۔ اور اس کی صورت وہی ہے جو میں نے عرض کی کہ مختلف اداروں کے نمایندے اور اردو کے ایسے بہی خواہ جن کے دل میں اپنی زبان کا درد ہے، ایک جا جمع ہوں اور آیندہ دس سال کے کام کا پورا نقشہ بنالیں اور اس پر ثبات و استقلال کے ساتھ عمل کرنے کا تہیہ کر لیں۔ اب رہی کامیابی سو اس کی نسبت یہ عرض ہے کہ ہمت نہ ہاریے۔ جس نے ہتھیار ڈال دیے وہ مغلوب اور غلام ہے۔ جو آخر تک مقابلہ پر تلارہا، جیت اسی کی ہے، خواہ وہ ہارہی کیوں نہ جائے۔کامیابی آسمان سے نہیں اترتی، یہ سب محنت، صبر استقلال کی کرامات ہے۔ جانیں کھپانی پڑتی ہیں تب کچھ ہاتھ آتا ہے۔ہر اک کو نہیں ملتی یاں بھیک زاہدبہت جانچ لیتے ہیں دیتے ہیں تب کچھ


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.