خطبۂ صدارت: سندھ پراونشل اردو کانفرنس

خطبۂ صدارت: سندھ پراونشل اردو کانفرنس
by مولوی عبد الحق
319565خطبۂ صدارت: سندھ پراونشل اردو کانفرنسمولوی عبد الحق

‏(مولانا نے یہ خطبہ بحیثیت صدرسندھ پراونشل اردو کانفرنس ۳۱‏‎/‎‏ دسمبر ۱۹۳۷ء کو کراچی میں پڑھا۔ مرتب)

‏یہ زمانہ عجیب وغریب انقلابات و تغیرات اورعجیب وغریب اختراعات و ایجادات کا ہے۔ ہم وہ عجائبات دیکھ رہے ہیں جنہیں دیکھ کر عقل ‏دنگ رہ جاتی ہے۔ تاربرقی، ٹیلی فون، ایروپلین اور دوربینی‏‎(Television) ‎ نے عالم میں انقلاب پیدا کر دیا ہے۔ زمان ومکان جن کی ‏وسعت اور بے پایانی انسانی فہم سے بالا ہے، آج اس خاک کے پتلے کے سامنے سکڑ کر رہ گئے ہیں۔ گھر بیٹھے ہزاروں کوس کی تقریریں اس ‏طرح سنتے اور وہاں کے کھیل تماشے اس طرح دیکھتے ہیں گویایہ سب کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے۔ ‏‏ان ایجادات کی بدولت سفر میں حضر اور حضر میں سفر کا لطف پیدا ہو گیا ہے۔ آمدورفت، خط وکتابت، حمل ونقل اور تعلیم وتعلم میں دنیا ایک ‏ہوتی جاتی ہے۔ انسانی دماغ نے یہ تو سب کچھ کیا لیکن زبان کے معاملے میں یہ اب تک عاجز ہے۔ ہر ملک کی الگ الگ زبان اور ہر زبان میں ‏کئی کئی بولیاں ہیں۔ جب دو غیرزبان یا غیرملک والے ایک جگہ آ ملتے ہیں تو باوجود نطق کے جو قدرت کابہت بڑا عطیہ ہے، گونگے بن جاتے ‏ہیں اور حیرت سے ایک دوسرے کامنہ تکنے لگتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اشاروں اور ہاتھ آنکھ کے چلانے سے دو ایک موٹی موٹی ضرورتیں ‏پوری کر لیں لیکن نہ معاملات پر گفتگو کر سکتے ہیں اور نہ اپنے دل کی بات دوسرے کو سمجھا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تمدنی، تہذیبی اور علمی ‏ضروریات اس امر کی مقتضی ہیں کہ دنیا کے پردے پر مختلف حصوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا فوراً ہم تک پہنچنا ضروری ہے۔ ‏آج کل حالت یہ ہے کہ زندگی کے ہرشعبے میں جلد جلد تغیرات ہو رہے ہں ، نئے نئے اکتشافات، نئی نئی ایجادیں، طرح طرح کے نظریے ‏عمل میں آرہے ہیں اور ایک ایسے شخص کے لیے جو علم کاپیاسا ہے یاکسی تحقیقات میں مصروف ہے، ان معلومات کا فوری علم لازم ہے۔ اور ‏جب تک دوسرے ذرائع یا ترجمے کی وساطت سے یہ معلومات اس تک پہنچیں دنیا آگے نکل جاتی ہے، یہ پیچھے رہ جاتا ہے اور اکثر ایسا ہوت اہے ‏کہ عمر بھر کی کمائی اکارت جاتی ہے۔ ‏یہی وجہ ہے کہ بنی نوع انسان کے بعض ہمدردوں نے اس ابتری اور افراتفری کو دیکھ کر ایک بین الاقوامی زبان ’’یاجگت بھاشا‘‘ ایجاد کرنے کی ‏کوشش کی۔ یہ کوششیں مختلف زبانوں میں ہوئیں اوربڑے اچھے اچھے دماغوں نے اس پر محنت کی لیکن اب تک اس میں خاطر خواہ کامیابی ‏نہیں ہوئی اور اس نقص کی وجہ سے انسان اب تک بہت سی خامیوں اور ناکامیوں کا شکار بنا ہوا ہے۔ ‏گو کوئی جگت بھاشا اب تک نہیں بنی اور نہ ابھی کوئی توقع ہے لیکن باوجود اس کے جب تجارت، کشورکشائی، جلاوطنی نے مختلف زبانوں کے ‏لوگوں کو ایک جگہ لا ملایا تو باہم متواتر سابقہ پڑنے یادوسرے دیس میں بس جانے سے ان لوگوں نے ایک دوسرے کی زبانوں کو گڈمڈ کرکے ‏ایک نئی زبان بنالی اور اسی میں بات چیت، لین دین، کاروبار اور معاملات انجام دینے لگے۔ دنیا میں اس قسم کی متعدد زبانیں ہیں۔ ان میں ‏سے ایک ہماری زبان بھی ہے جو اردو یاہندستانی کے نام سے موسوم ہے، جو کسی بادشاہ کے خبط یا کسی حکیم کی حکمت یاکسی خوش فکر کے ‏وہم کا نتیجہ نہیں بلکہ انسانی ضروریات کا اقتضا اس کا باعث ہوا۔ ‏جگت بھاشا نہیں تو نہ سہی، کم سے کم ہمارے پاس ایک ایسی زبان تو ہے جسے ہم ’’دیش بھاشا‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ‏بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی تھیں اور بولی جاتی ہیں، ایک ایسی زبان کا ہونا لازم تھا۔ قانون قدرت نے اپنا کام کیا اور انسانی ضرورت ‏نے اسے لبیک کہا اور رواج نے اسے پھیلایا۔ اس لیے کہ جب اسلامی سلطنت کو یہاں استحکام ہوا، حکومت کو وسعت ہوئی، امن و عافیت میں ‏ترقی ہوئی، مختلف صوبوں میں ربط قائم ہوا، آمد ورفت اور میل جول کی آسانیاں پیدا ہوئیں، نئے سامان ظہور میں آئے، حالات و خیالات ‏میں تغیر ہوا اور ایک جدید ماحول کا دور شروع ہواتو ان حالات اور ماحول کے لیے ایک نئی زبان کی ضرورت واقع ہوئی کیونکہ اس وقت ‏جتنی زبانیں ہندستان میں رائج تھیں، وہ سب اپنے اپنے حلقے میں محدود تھیں اور اس نئی خدمت کے انجام دینے سے قاصر تھیں۔ ‏‏فارسی ہر چند کہ سرکاری درباری زبان تھی اور اپنی خوبیوں کی وجہ سے ہندستان، افغانستان، ایران نیز مملکت روم تک چھائی ہوئی تھی مگر آخر ‏غیر زبان تھی اور ملکی زبان نہیں ہو سکتی تھی (بعینہٖ جیسے اس وقت انگریزی۔) اس لیے ایک زبان کی جگہ خالی تھی۔ اس خالی جگہ کوخود بخود ‏اس نئی زبان نے پر کیا جو ضروریات وقت کے لحاظ سے دونوں قوموں یعنی ہندو مسلم کی شرکت اور اتحاد سے بنی تھی۔ یہی ہماری دیش ‏بھاشا ہے۔ یہی ہماری ملکی اور قومی زبان ہے کیونکہ اس کی تخلیق کی غرض و غایت ہی یہی تھی۔ اب کوئی دوسری، خواہ نئی ہو یاپرانی، اس سے ‏یہ منصب نہیں چھین سکتی۔ ‏اس قسم کی مخلوط زبانوں کے بننے کے دوران میں ایک خاص بات عمل میں آتی ہے جو قابل غور ہے یعنی ان میں سے ہرزبان کواس خیال ‏سے کہ جانبین کو ایک دوسرے کی بات آسانی سے اور جلد سمجھ میں آ سکے، اپنی بعض خصوصیات کو ترک کرنا پڑتا ہے اور صرف ایسی صورتیں ‏باقی رکھنی پڑتی ہیں جویاتو مشترک ہوتی ہںٓ یا جن کا اختیار کرنا دونوں کے لیے سہل ہوتا ہے اور اس طرح ان میں ایک توازن ‏سا پیدا ہو جاتا ہے جو فریقین کے لیے سہولت کا باعث ہوتا ہے۔ اردو یا ہندستانی کے بننے میں بھی یہی ہوا۔ فریقین یعنی ہندو مسلمان دونوں نے ‏اپنی اپنی زبانوں میں کتر بیونت کی، اپنی مخصوص خصوصیات کو ترک کیا اور اس قربانی کے بعد جو نئی زبان بنی، اسے اختیار کیا، جوضرورت ‏زمانہ کے مطابق اور حالات کے مناسب تھی اور جواب ہماری ملکی اور قومی زبان ہے اور ہندستان کی مشترک اور عام زبان کا درجہ حاصل ‏کر چکی ہے۔ ہم نے اسے قربانی کرکے حاصل کیا ہے اور کسی کایہ منہ نہیں ہو سکتا کہ وہ ہم سے اسے چھڑائے۔ ‏اس قسم کی مخلوط زبانیں دنیا میں جہاں جہاں ہیں، ان میں سے اکثر اور غالباً سب کی سب بول چال اور کاروبار کی حد تک کام آتی ہیں۔ یہ امتیاز ‏صرف اردو کو حاصل ہے کہ وہ لشکر اور بازار سے نکل کر مسند انشاتک پہنچی، رونق محلا شعراہوئی، علم وادب کا سہارا بنی اور سب سے بڑھ ‏کر یہ کہ آج یونیورسٹی کے اعلیٰ مضامین اور علم کا ذریعۂ تعلیم ہے۔ یہ وہ درجہ ہے جواب تک ہندستان کی کسی زبان کو حاصل نہیں ہوا۔ ‏کہا جاتاہے کہ اب نیا زمانہ آ گیا ہے، نئے حالات ہو گئے ہیں، نئے دور نے جنم لیا ہے، نئے خیالات کی آمد ہے، اس لیے اب زبان بھی نئی ہونی ‏چاہیے۔ بے شک ایک زمانہ ایسا تھا کہ نئے حالات اور خیالات اور جدید ماحول کی وجہ سے بھی ایک جدید زبان کی ضرورت تھی اور وہ اس ‏لیے کہ پہلے سے ملک میں کوئی زبان موجود نہ تھی۔ اب جب کہ ایک زبان بن چکی، ملک میں رائج ہو چکی، ملک کی عام اور مشترک زبان ‏مانی جا چکی تو اس کے ہوتے کسی دوسری زبان کا بنانا سودائے خام اور خیال باطل ہے۔ ‏ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک ایسی زبان میں جو ملک بھر کی زبان ہونے کا دعویٰ رکھتی ہے، اتنی صلاحیت اور استعداد ہونی چاہیے کہ وہ زمانے ‏کا ساتھ دے سے اور نئے خیالات اور افکار ادا کر سکے۔ یہ ہر زندہ زبان کے لیے لازم ہے ورنہ وہ زندہ نہیں رہ سکتی۔ یہ صلاحیت اس میں پوری ‏پوری موجود ہے جس کے لیے مجھے اس وقت شہادت پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ الفاظ کا ذخیرہ روز بروز بڑھتا جاتاہے، نئے نئے اسلوب ‏بیان پیدا ہوتے جاتے ہیں، نظم ونثر کا رنگ بدلتا جاتا ہے، نئی اصطلاحات وضع ہوتی جاتی ہیں، مغربی تصانیف کے ترجمے ہو رہے ہیں، مختلف ‏علوم پر تالیفات کی جا رہی ہیں۔ یہ سب باتیں ہماری زبان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔ ‏ایک حکیم کا قول ہے کہ غیر اقوام کے لوگوں کو اپنی قوم میں اس طرح جذب کر لینا کہ اپنے اورغیر میں کوئی امتیاز نہ رہے بلاشبہ بہت مشکل ‏کام ہے لیکن غیر زبانوں کے الفاظ کو اپنی زبان میں اس طرح جذب کر لینا کہ معلوم تک نہ ہو کہ یہ غیر ہیں، اس سے بھی زیادہ مشکل کام ‏ہے۔ یہ استعداد اردو زبان میں بدرجہ ٔکمال موجود ہے۔ اس میں سینکڑوں، ہزاروں الفاظ غیر زبانوں کے اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ ‏بولنے، پڑھنے والوں کو خبر تک نہیں ہوتی کہ یہ دیسی ہیں یا بدیسی، اپنے ہیں یا پرائے۔ ‏میں علی الاعلان یہ کہتاہوں اور اس کہنے میں مجھے ذرا بھی تامل نہیں کہ ہم ہندی، سندھی یا ہندستان کی کسی زبان کے بھی مخالف نہیں بلکہ ‏ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہر زبان کو زندہ رہنے اور ترقی کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ امر مسلم ہے اور ہر طبقے اور ملت کااس پر اتفاق ہے کہ کوئی ایک ‏زبان ایسی ضرور ہونی چاہیے جو ہماری ملکی اور قومی زبان ہو۔ اب بحث اس میں ہے کہ وہ کون سی زبان ہو۔ ‏ہمارا کہنا یہ ہے اور ہم اس کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ایک ایسی زبان پہلے سے موجود ہے جسے اردو یا ہندستانی کہتے ہیں۔ یہ وجود میں آئی ہی ‏اس غرض سے تھی۔ اقتضائے وقت نے اسے پیداہی اسی لیے کیا تھا۔ یہ اب تک ملکی اور مشترکہ زبان سمجھی جاتی رہی اور مشترکہ زبان کا کام ‏دیتی رہی اور اس وقت بھی یہی خدمت انجام دے رہی ہے۔ میرایہ دعویٰ اس لیے نہیں کہ یہ میری زبان ہے بلکہ یہ ایک ایسی تاریخی ‏حقیقت ہے جس سے انکار نہیں ہو سکتا۔ ‏رہی ہندی، سو اس کے مخالف تو ہم ہو ہی نہیں سکتے، اس لیے کہ وہ ہماری ہی ساختہ پرداختہ ہے۔ ہمیں نے اس کو فروغ دیا اور پھیلایا کیونکہ ‏جب مسلمان یہاں آئے تو جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا ہے ہرعلاقے کی بولی الگ الگ تھی۔ نہ ملک کی کوئی عام زبان تھی اوار نہ کوئی ایک ‏حکومت تھی اور نہ ذرائع آمدورفت وسیع تھے، اس لیے ہر بولی کا حلقہ محدود تھا۔ مسلمان فاتحوں کی زبان فارسی تھی۔ جب انہوں نے دہلی ‏کو اپنا دارالحکومت بنایا تو وہاں کی ایک مقامی بولی سے جواب کھڑی بولی کہلاتی ہے اور جس کے معنی عوام کی بولی کے ہیں، فارسی کی مڈبھیڑ ‏ہوئی۔ جیسے جیسے ہندومسلمانوں میں میل جول بڑھتا گیا، ان دونوں زبانوں میں بھی بط ضبط بڑھنا شروع ہوا۔ اور رفتہ رفتہ یہ دونوں ایسی ‏گھل مل گئیں کہ فارسی اور کھڑی بولی کا کوئی امتیاز باقی نہ رہا اور جوں جوں اسلامی سلطنت پھیلتی گئی، اس کا دامن بھی وسیع ہوتا گیا اور یہ بولی ‏جسے کوئی جانتا پہچانتا نہ تھا ہماری بدولت سارے ہندستان میں پہنچی۔ ‏سلطنت کی فوجیں، صوفی ودرویش، علما و شعرا، عمال وحکام جہاں گئے اسے اپنے ساتھ لے گئے اور ہندستان کے گوشے گوشے سے اسے ‏روشناس کرا دیا۔ ہم اس کی مخالفت کیوں کر کر سکتے ہیں؟ یہ ہماری زبان کی زینت اور رونق بلکہ اس کی جان ہے۔ اگر آج ہم اپنی زبان سے ‏اسے خارج کر دیں تو ہماری زبان مہمل اور بےمعنی ہو جائےگی۔ ‏لیکن ہاں ہم اس جدید ہندی کے بے شک مخالف ہیں جو ہندستان کی دوبڑی قوموں میں پھوٹ ڈالےا کے لیے بنائی گئی ہے، جس کی بنیاد نئی ‏قومیت کے جوش اور فرقہ واری جذبے پرہے، جس کا منشا عربی فارسی الفاظ کو خارج کرکے ان کی بجائے سنسکرت اور ہندی کے نامانوس الفاظ ‏رائج کرنا ہے حالانکہ وہ عربی فارسی الفاظ صدہا سال سے رس بس کے ہندستانی زبان کا جز ہو گئے ہیں۔ ‏ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ہندستانی یا اردو مخلوط زبان ہے، یہاں کی خالص زبان نہیں۔ اول تو دنیا کی کوئی زبان خالص نہیں، ‏دوسرے ہماری زبان کا مخلوط ہونا عیب نہیں بلکہ اس کی خوبی ہے۔ اس سے اس کایہ دعویٰ اور بھی قوی ہو جاتا ہے کہ وہی ملک کی مشترکہ زبان ‏ہے۔ نیز اس اختلاط کی وجہ سے اس میں ایک ایسی وسعت، قوت اور فراوانی پیدا ہو گئی ہے کہ ادیب کو ہر قسم کے خیالات نئے نئے ڈھنگ ‏سے ادا کرنے اور صحیح اور موزوں لفظ کے انتخاب میں جو سہولت ہے، وہ شاید ہی ہندستان کی کسی دوسری زبان میں ہو۔ مخلوط ہونے سے ‏ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ نئے الفاظ کے بنانے اور ترکیب دینے کے لیے ایک وسیع میدان ہاتھ آ جاتا ہے۔ ایک ایسی زبان کے لیے جو علمی اور ‏ادبی ہونے کی آرزو یا دعویٰ رکھتی ہے یہ بہت بڑی چیز ہے۔ ‏جدید ہندی کے حامیوں نے زبان کو خالص بنانے کی یہ ترکیب نکالی ہے کہ فارسی عربی کے لفظ چن چن کر نکال دیے جائیں اور ان کی جگہ ‏سنسکرت یاہندی کے لفظ داخل کیے جائیں خواہ وہ مانوس ہوں یا نہ ہوں، سمجھ میں آئیں یانہ آئیں۔ یہ نہایت احمقانہ خیال ہے۔ انشاپرداز ‏یا ادیب کے پیش نظر یہ اصول ہونا چاہیے کہ عام استعمال میں سب سے بہتر لفظ کون ساہے خواہ کسی زبان کا ہو۔ الفاظ کے انتخاب میں لفظ ‏کی نسل واصل کو نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ کون سا لفظ خیال کو صحت اور خوبی کے ساتھ ادا کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ الفاظ کے ‏انتخاب کی بنیاد اس اصول پر رکھنا کہ کوئی لفظ غیرزبان کانہ آنے پائے، خواہ کیسا ہی موزوں، صحیح اور عام فہم کیوں نہ ہو، نہایت گمراہ کن ‏اصول ہے اور زبان کے حق میں سخت مضر ہے۔ ‏میں آپ کو ایک چھوٹا سا واقعہ سناتا ہوں۔ کوئی ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوتا ہے، میں میرٹھ سے دہلی جا رہا تھا۔ گاڑی ایک گاؤں کے اسٹیشن پر ‏ٹھہری۔ وہاں سے دو ہندو صاحب سوار ہوئے۔ آج کل گنے کی کاشت کا بہت رواج ہو رہا ہے۔ ادھر بھی جگہ جگہ لوگوں نے سہولت کے لیے ‏اسٹیشنوں کے قریب گنے کی کاشت کے ساتھ گڑ بنانے کے کارخانے قائم کر رکھے ہیں۔ گنے کا پھوک اور دوسرا کوڑا کرکٹ ریلوے لائن کے ‏قریب پھینک دیتے ہیں، جس سے بہت بدبو پھیل جاتی ہے۔ چنانچہ جب گاڑی چلی اور بدبو آئی تو مںا نے کہا کہ اس گاؤں سے بہت بدبو آ رہی ‏ہے۔ ان ہندو صاحب نے فرمایا کہ یہاں گڑ کا کارخانہ ہے۔ اس کی وجہ سے سخت تعفن پیدا ہو گیا ہے۔ ‏‏اس گفتگو میں ان صاحب نے تعفن کا لفظ استعمال کیا اور میں نے بدبو کا۔ لیکن میں بدبو کو تعفن پر ترجیح دیتا ہوں۔ اس لیے نہیں کہ یہ لفظ میں ‏نے کہا تھا اور نہ اس لیے کہ تعفن عربی لفظ ہے اور بدبو ہندستانی، بلکہ اس لیے کہ یہ زیادہ عام فہم اور سہل ہے اور بالکل وہی مفہوم ‏ادا کر رہا ہے جو تعفن۔ لیکن اگر کوئی قیمت، دکان، کتاب کی جگہ نامانوس ہندی یا سنسکرت کے لفظ استعمال کرے گا تو میں کبھی روانہ رکھوں گا۔ ‏اگر چہ قیمت اور دکان عربی اور فارسی کے لفظ ہیں لیکن وہ اس قدر عام طور پر رائج اور اس قدر مختصر اور سہل ہیں کہ ان کی جگہ ثقیل اور ‏نامانوس الفاظ استعمال کرنا ذوق سلیم کا خون کرنا ہے۔ ‏ایک اور غضب آج کل یہ ہو رہا ہے کہ اچھے خاصے ٹھیٹ ہندی لفظوں کی جگہ جان جان کر ثقیل نامانوس سنسکرت لفظ داخل کیے جا رہے ہیں ‏یا ان اصل سنسکرت الفاظ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر لایا جا رہا ہے جو کسی قدر تغیر کے بعد ہندی اور اردو میں آ گئے ہیں۔ مثلاً برس کو ورش، گاؤں ‏کو گرام کہیں گے حالانکہ برس اور گاؤں خاص و عام سب کی زبان پر ہیں اور خالص ہندی ہیں۔ یا مثلاً پیر نہیں پد کہیں گے۔ اس قسم کے ‏سینکڑوں لفظ نئے نئے داخل کیے جا رہے ہیں، جن کی تفصیل خواہ مخواہ موجب طوالت ہوگی۔ اس سے ان کی نیت کا پتا چلتا ہے۔ ‏‏میں آپ کو ایک لطیفہ سناتا ہوں۔ میرا ایک ہندو طالب علم ریل میں سفر کر رہا تھا۔ اسے دیاسلائی کی ضرورت ہوئی تو اس نے اپنے ہم سفر ‏ہندو نوجوان سے مانگی۔ اس نے دیاسلائی تو دے دی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اب اس کا نام دیاسلائی نہیں رہا۔ طالب علم نے حیرت سے ‏پوچھا کہ پھر اب اسے کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا، ’’دھومرشلاکا۔‘‘ اس حماقت اور بدذوقی کی کوئی انتہاہے؟ دیاسلائی ٹھیٹ ہندی لفظ ہے اور ‏اس کے دونوں جز ہندی ہیں۔ پھر ایک نہایت عام فہم، سادہ اور خوبصورت لفظ ہے۔ اس کی جگہ دوسرا ثقیل، نامانوس مہمل لفظ استعمال کرنا ‏کس قدر حیرت انگیز ہے۔ آخر اس کا کیا مطلب ہے؟ مطلب ظاہر ہے اور مجھے اس کی تشریح کی ضرورت نہیں۔ ‏ابھی چند روز کا ذکر ہے کہ الہ آباد یونیورسٹی کا کانووکیشن ایڈریس پنڈت مدن موہن مالویہ جی نے ہندی زبان میں ارشاد فرمایا۔ اگر چہ ‏میرے لیے کوئی نئی چیز نہ تھی کیونکہ جامعۂ عثمانیہ کا ذریعۂ تعلیم اعلی جماعتوں تک اردو ہے اور وہاں ہر سال کانووکیشن کا ایڈریس اردو ہی ‏میں پڑھا جاتا ہے لیکن مےھ اس سے بے انتہا خوشی ہوئی کیونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ برٹش انڈیا کی ایک پرانی یونیورسٹی میں کانووکیشن ایڈریس ‏ایک دیسی زبان میں سنایا گیا۔ پنڈت جی نے شروع میں حاضرین سے انگریزی زبان میں دو باتوں کی اجازت چاہی۔ ایک تو یہ کہ میں بیماری ‏کی وجہ سے بہت کمزور ہوں، اپنی تقریر بیٹھ کر کروں گا۔ دوسرے یہ کہ میں اپنی تقریر اپنی مادری زبان میں کروں گا۔ ‏اس کے بعد جو انہوں نے تقریر شروع کی وہ سنسکرت آمیز ہندی میں تھی۔ اس پر ایک طالب علم نے (خدااس کی ہمت میں برکت دے) اٹھ ‏کر کہا، ’’جناب میں آپ کی زبان نہیں سمجھ سکتا۔‘‘ اس پر پنڈت جی چونکے اور انہوں نے ایسی ہندی میں تقریر کی جو آدھی مادری زبان تھی ‏اور آدھی پدری۔ پنڈت جی علاوہ سنسکرت اور انگریزی کے عالم ہونے کے ہندستانی زبان کے بھی ادیب ہیں۔ جن لوگوں نے کچھ عرصہ قبل ‏ان کی تقریریں سنی ہیں، وہ شہادت دے سکتے ہیں کہ وہ کیسی شستہ اور فصیح ہندستانی یعنی اردو بول سکتے ہیں۔ لیکن ان اثرات اور حالات کی ‏وجہ سے جو آج کل ہماری بدنصیبی سے ملک پرچھائے ہوئے ہیں، انہوں نے اپنا رخ بدل دیا ہے۔ جب ایسے پختہ کار، دوراندیش اور ہمدرد ‏بزرگ جن سے اصلاح ومصالحت کی توقع ہے، مضراثرات سے نہیں بچ سکتے تو نوجوانوں اور بے خبر لوگوں سے کیا شکایت ہو سکتی ہے۔ ‏ایک بات ان کی تقریر میں یہ نظر آئی کہ جب انہیں کوئی ہندی لفظ نہیں ملتا تھا تو اردو یا فارسی کا مروجہ لفظ نہیں استعمال کرتے تھے بلکہ اس کی ‏جگہ انگریزی لفظ کو ترجیح دیتے تھے۔ سنسکرت کے جو اقوال ان کی تقریر میں آتے تھے اس کا ترجمہ وہ ہندستانی میں نہیں بلکہ انگریزی میں ‏فرماتے تھے۔ یہ سب باتیں صاف بتاتی ہیں کہ ہوا کارخ کس طرف ہے۔ ‏ہم ان باتوں کے روادار نہیں ہو سکتے۔ بدگمانی بری چیز ہے لیکن بدگمانی پیدا کرنے والوں کو کیا کہا جائے؟ انڈین نیشنل کانگریس نے اپنے ‏ریزولیوشن میں صاف طور سے اس امر کا اعلان کیا ہے کہ ملک کی زبان ہندستانی ہوگی لیکن اس معزز جماعت نے کبھی اس کوعمل میں لانے ‏کی کوشش نہیں کی۔ اور جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس کے ممتاز ارکان ہندی کی اشاعت پر تلے ہوئے ہیں تو ہماری بدگمانی بالکل بجاہے۔ ابھی ‏حال میں ایک راجہ نے ایک بیش قرار رقم مسٹر سی راج گوپال اچاریہ کی خدمت میں اس غرض سے پیش کی ہے کہ وہ اسے ہندی کی اشاعت ‏میں صرف کریں۔ سی راج گوپال اچاریہ کانگریس کے رکن اعظم اور صوبۂ مدراس کی کانگریس حکومت کے وزیر اعظم ہیں۔ انہیں چاہیے تھا ‏کہ وہ شکریہ کے ساتھ اس رقم کو واپس کر دیتے اور صاف کہہ دیتے کہ کانگریس کے عقیدے اور اصول کے روسے وہ اس رقم کو قبول نہیں ‏کر سکتے، ہاں اگر ہندستانی کی اشاعت کے لیے دیے جاتے ہیں تو بسروچشم قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس سے ‏ظاہر ہے کہ ہندستانی کاریزولیوشن بھی ایک سیاسی چال تھی۔ ‏حضرات! زبردستی فاقے کرنے، پرجوش سیاسی تقریریں کرنے یا خوش نما الفاظ میں ریزولیوشن منظور کرلینے سے دل نہیں بدلتے۔ دل ‏بدلنے والی چیزیں اور ہی ہوتی ہیں۔ ‏حال ہی میں پنڈت جواہر لال نہرو نے زبان کے مسئلے پر ایک رسالہ شایع کیا ہے۔ اس میں وہ تحریر فرماتے ہںا کہ اردو شہروں کی زبان ہے ‏اور ہندی دیہات کی۔ یہ بیان سراسر خلاف واقعہ اور غلطی پر مبنی ہے۔ پنڈت جی نے یا تو لاعلمی کی وجہ سے یا اس عام پروپیگنڈے کی بنا پر جوہر ‏طرف کیا جا رہا ہے، یہ لکھ دیا ہے۔ ورنہ وہ جدید زبان جسے آج کل ہندی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، ہندستان کے کسی دیہات میں نہیں ‏بولی جاتی۔ میرٹھ ی ادلی کے دیہات والے کے لیے بہار کے دیہات والے کی بولی ایسی اجنبی ہے جیسے ایک لاہوری کے لیے ملتانی۔ ہندی کا لفظ ‏مبہم ہے اور اس سے مغالطہ پیدا کیا جا سکتا ہے لیکن ہم اس غلطی یا دھوکے میں نہیں آنا چاہتے۔ ہمیں قطعی طور سے طے کر لینا چاہیے کہ ‏ہندستانی یعنی اردو ہمارے ملک کی زبان ہے اوراس کی اشاعت اور ترقی میں ہمارے ملک کی بہبودی ہے۔ ‏اے اہل سندھ! اگرچہ اردو کی ابتدا آپ کے ملک میں نہیں ہوئی لیکن سب سے پہلے مسلم ہندو تہذیبوں کی یکجائی آپ ہی کے ہاں شروع ہوئی ‏اور آپ ہی نے یکجہتی میں وہ رنگ پیدا کیا جس کے نمونے کچھ دنوں پہلے تک دونوں قوموں کے رفتار وگفتار، خوراک وپوشاک وغیرہ میں نظر ‏آتے تھے۔ اب بھی آپ کی زبان میں ہزاروں عربی فارسی کے لفظ بے تکلف بول چال اور تحریر میں آتے ہیں۔ گویا آپ نے وہ زمین تیار کی ‏جس پر آگے چل کر اردو کے چمن نے رونق اور سرسبزی حاصل کی۔ ‏‏اگرچہ ہم دونوں کی یکجہتی اور اتحاد کی اور بہت سی نشانیاں اب بھی موجود ہیں اور بہت سی مٹتی جاتی ہیں، لیکن یہ زبان جو اردو یاہندستانی ‏کہلاتی ہے، ہندو مسلم یکجہتی اور اتحاد کی سب سے بڑی اور زندہ یادگار ہے۔ اس کی ساخت اور ترکیب میں دونوں قوموں کے اعلیٰ دماغ ‏اور افکار، دونوں قوموں کی بےریا اور متحدہ کوششوں اور دونوں قوموں کے ادبی نتائج کا نچوڑ موجود ہے۔ اب بھی اگر کوئی چیز ہمارے اتحاد ‏کا ذریعہ ہو سکتی ہے تو یہی ہے۔ اب بھی اگر ہمارے بکھرے شیرازے کو ایک رشتے میں منسلک کر سکتی ہے تو یہی ہے۔ اس کے قائم رکھنے میں ‏ہماری سعادت مندی اور اس کے پھیلانے اور ترقی دینے میں ہماری قومی بہبودی ہے۔ ‏آپ کے صوبے کی زبان یوپی، پنجاب اور بہار کو چھوڑ کردوسرے صوبوں کے مقابلے میں اردو سے قریب تر ہے۔ جیسا کہ میں نے ابھی ‏عرض کیا، ہزارہا فارسی عربی کے لفظ آپ کی زبان میں رس بس گئے ہیں۔ فارسی زبان کا تسلط یہاں صدہا سال تک رہا ہے، عربی کی تعلیم اب ‏تک جاری ہے، رسم خط تقریباً وہی ہے جو اردو کا ہے اور یہ سب سے بڑی سہولت ہے جو آپ کو حاصل ہے۔ جملے کی ترکیب اور ترییب وہی ‏ہے جو اردو زبان کی ہے۔ آپ کے صوبے میں سینکڑوں اردو کے ادیب اور شاعر ہوئے ہیں اور اب بھی موجود ہیں۔ اردو کے اخبار ‏اور رسالے بھی نکلتے ہیں۔ مشاعرے بھی یہاں اسی دھوم دھام سے ہوتے ہیں جیسے ہندستان کے دوسرے شہروں میں۔ اس لیے آپ کو ا س ‏زبان کی تحصیل واشاعت میں بہت سی آسانیاں حاصل ہیں جو ہندستان کے بعض دوسرے صوبوں کو حاصل نہیں۔ ‏جب جنوبی آرکاٹ میں ٹنڈی ونم اور شمالی آرکاٹ میں وانم باڈی اور نیلگری وغیرہ اضلاع کے لوگ اردو کوحاصل ہی نہیں کرتے بلکہ اپنی ‏مادری زبان کی طرح بولتے، پڑھتے اور لکھتے ہیں تو میرے خیال میں اہل سندھ ان سے کہیں بہتر اس میں مہارت پیدا کر سکتے ہیں اور اگر وہ ‏ذرا بھی اس طرف توجہ کریں گے تو چند ہی سال میں ان میں ایسے ایسے ادیب اور شاعر ہونے لگیں گے جیسے پنجاب، یوپی، بہار اور حیدرآباد ‏دکن میں۔ ‏آپ نے سندھ پراونشل اردو کانفرنس کا اہتمام بڑی شان اور سلیقے سے کیا ہے۔ یہ بہت اچھا خیال ہے۔ اس کی سخت ضرورت تھی اور آپ کی یہ ‏سعی قابل مبارک باد ہے۔ اس میں فصیح و بلیغ تقریریں ہوں گی، دلکش اور پر اثر نظمیں پڑھی جائیں گی، مفید اور ضروری ریزولیوشن پیش ‏ہوں گے، اردو کی اشاعت وترقی کی تجویزوں پر غور ہوگا، مشاعرے کی دھوم دھام ہوگی۔ بلاشبہ یہ تحریک بہت کار آمد اور قابل قدر ہے۔ اس ‏سے اردو کا چرچا ہوگا، مطالعہ کا شوق بڑھےگا اور لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہوگا۔ لیکن کیا آپ کی رائے میں ایک ایسی زبان کے لیے جسے ‏آپ سارے ہندستان کی عام اور مشترک زبان خیال کرتے ہیں یاعام اور مشترک زبان بنانے کی آرزو رکھتے ہیں، اس قسم کے چند ہنگامے ‏کر دینے کافی ہوں گے؟ ‏زمانے کی رفتار میں اس وقت غیرمعمولی سرعت نظر آتی ہے۔ خود ہمارے ملک میں جو تغیرات گزشتہ چند سال سے رونما ہو رہے ہیں، وہ ‏کم حیرت انگیز نہیں ہیں۔ اس لیے اگر ہم اپنے مقصد کے حصول میں زیادہ تیزی، زیادہ مستعدی اور زیادہ تن دہی سے کام نہ لیں گے تو ہم ‏پہلے سے بھی پیچھے رہ جائیں گے۔ ‏اردو زبان کی اشاعت اور اردو ادب کی ترقی بجائے خود ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس معاملے میں ہر صوبے اور ہر علاقے کی حالت جدا جدا ہے۔ ‏اس لیے کام کی نوعیت میں بھی پوری یکسانی نہیں ہوگی۔ لیکن میں اپنے ذاتی تجربے نیز ان اطلاعات کی بنا پر جو مجھے مختلف مقامات سے ‏وصول ہوتی رہتی ہیں، یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہر صوبے اور ہر علاقے میں کثرت سے لوگ اردو زبان کے سیکھنے کے خواہاں ہیں۔ لیکن کام کرنے ‏والے نہیں اور کہیں ہیں تو یہ نہیں جانتے کہ کیا کیا جائے اور کیونکر کیا جائے۔ ‏‏دوسری مشکل یہ ہے کہ ہر جگہ اس کا رونا ہے کہ سرمایہ نہیں۔ انجمن ترقی اردو (ہند) کے پیش نظر یہ مسئلہ ہے کہ اردو زبان وادب کی ‏اشاعت کے لیے ہندستان کے ہر صوبے اور علاقے میں کیونکر تنظیم کی جائے۔ چنانچہ اس غرض سے اردو زبان کے جائزے کا کام شروع ‏کیا گیا جس کا مقصد ان امور کا معلوم کرنا ہے کہ ہر صوبے اور ہر علاقے میں کتنے اردو بولنے اور سمجھنے والے ہیں، کتنے اردو لکھ پڑھ سکتے ہیں، ‏کتنے ایسے ہیں جن کی مادری زبان اردو ہے، کتنے اردو مدارس ہیں اور اردو پڑھنے والوں کی کیا تعداد ہے، کتنے کتب خانے ہیں، کتنے اردو ‏اخبار، رسالے اور مطبع ہیں، اردو نصاب تعلیم کی کیاحالت ہے، سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں اردو کا کہاں تک دخل ہے۔ کون کون لوگ ‏اردو سے ہمدردی رکھتے اور اردو کی خدمت کرتے ہیں۔ ‏غرض اسی قسم کے اور ستفسارات ہیں جن کے جواب مہیا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا منشا یہ ہے کہ ہم ہر صوبے اور علاقے کے ‏مخصوص حالات پیش نظر رکھ کر وہاں کام شروع کریں۔ لیکن صدر انجمن کچھ نہیں کر سکتی اگر خود ان علاقوں کے لوگ اس کی مدد نہ کریں یا ‏اس کام میں اس کا ہاتھ نہ بٹائیں۔ انجمن کی شاخیں ہر علاقے میں اسی غرض سے قائم کی گئی ہیں اور کی جا رہی ہیں۔ ہر علاقے کے لوگ اپنے ‏حالات سے زیادہ باخبر اور اپنی ضروریات سے زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ صدر انجمن نے زبان کی اشاعت اور ترقی ادب کا خاکہ تیار کر دیا ہے۔ ‏اب یہ ہر شاخ کا کام ہے کہ اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جب کوئی مشکل آپڑے گی یاضرورت محسوس ہوگی تو ‏صدر انجمن اپنی شاخوں سے تعاون کرنے اور امداد اور مشورہ دینے میں کبھی دریغ نہیں کرےگی۔ ‏عام طور پر شاخوں کے لیے یہ کام تجویز کیا گیا ہے،(‏۱) مناسب مقامات پر اردو کے مکاتب قائم کرنا۔ ‏(‏۲) بالغوں کی تعلیم کے لیے مدارس شبینہ قائم کرنا۔ ‏(‏۳) لوگوں کے دلوں میں اردو زبان کی ضرورت اور اہمیت کا احساس پیدا کرنا۔ ‏(‏۴) مطبوعات انجمن ترقی اردو وغیرہ کی اشاعت میں کوشش کرنا۔ ‏(‏۵) مختلف مقامات پر کتب خانے اور مطالعے خانے قائم کرنا۔ ‏(‏۶) حسب ضرورت ادبی جلسے کرنا۔ ‏(‏۷) اپنے اپنے علاقے میں میونسپلٹی اور ڈسٹرکٹ بورڈ کے مدارس، نیز سرکاری مدارس اور مکاتب میں اردو کی تعلیم کا انتظام کرنا۔ ‏(‏۸) اپنے اپنے علاقے کے اچھے اردو لکھنے والوں کی ہمت افزائی کرنا۔ ‏(‏۹) اپنے اپنے علاقے کے سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں اردو زبان کے رواج کی کوشش کرنا۔ ‏(‏۱۰) مقامی ضروریات کے مطابق اردو کے تحفظ وترقی کی مناسب تدابیر اختیار کرنا۔ ‏یہ شاخوں کے کام کا مجمل خاکہ ہے۔ اس بنیاد پر تفصیلی کام ہر ایک شاخ کو اپنے اپنے علاقے کے مخصوص حالات کے مطابق کرنا ہوگا۔ ‏کراچی میں انجمن ترقی اردو کی شاخ ایک مدت سے قائم ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس نے کچھ کام نہیں کیا لیکن اس زمانے کے لحاظ سے اسے ‏ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ اس کے کام کی موجودہ رفتار بالکل ناکافی ہے۔ آپ نے جس شوق سے اس کا م کی ابتدا کی تھی، اسے انجام تک پہنچانے ‏کے لیے پوری کوشش اور پوری قوت اور کامل تن دہی کی ضرورت ہے۔ ‏یوں تو ہم میں سینکڑوں اختلافات موجود ہیں لیکن غالباً زبان ہی کا مسئلہ ایسا ہے جس میں ہم سب متفق ہیں مگر اختلافات پیدا ہوتے کچھ دیر ‏نہیں لگتی۔ اس لیے آپ کو ہر قسم کے اختلافات اور مشکلات کے مقابلے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کرنے کے قابل ایسے ہی کام ہوتے ہیں اور ‏اسی میں انسان کے جوہر کھلتے ہیں۔ ‏حضرات! اگر آپ کو اپنی زبان عزیز ہے اور آپ اسے قومی زبان خیال کرتے ہیں تو اس کی ترقی کے لیے ایسی ہی کوشش کیجیے جیسے آپ اپنی ‏زندگی کے لیے کرتے ہیں کیونکہ یہ ہماری زندگی کاجز ہے اور ہمارا تمدن اور تہذیب اور معاشرت اس سے وابستہ ہے۔ ‏اس لیے میں اپیل کرتا ہوں تمام اہل سندھ سے، میں اپیل کرتا ہوں تمام اردو کے بہی خواہوں اور ہمدردوں سے اور اپیل کرتا ہوں ملک ‏وقوم کے ہوا خواہوں سے اور خصوصاً مسلم ہوسٹل کے طالب علموں سے کہ وہ اپنی قومی زبان کی اشاعت وترقی میں دل وجان سے کوشش ‏کریں اور سب سے آخر میں اور سب سے زیادہ زور اور ادب کے ساتھ میں علمائے کرام اور مشائخان عظام کی خدمت میں درخواست کرتا ہوں ‏کہ وہ اپنے ارادت مندوں کواس طرف متوجہ کریں تاکہ ان کے اثر اور ہدایت کی بدولت زبان کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہمارے قومی اتحاد ‏کو بھی استحکام اور ترقی نصیب ہو۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.