خطبۂ صدارت انجمن ترقی پسند مصنفین ہند

خطبۂ صدارت انجمن ترقی پسند مصنفین ہند
by مولوی عبد الحق
319561خطبۂ صدارت انجمن ترقی پسند مصنفین ہندمولوی عبد الحق

(ترقی پسند ادیبوں کا پہلا جلسہ ماہ اپریل ۱۹۳۶ ء کو لکھنؤ میں ہو اتھا۔ شعبۂ اردو کی صدارت کے لیے انہوں نے مولانا عبد الحق صاحب کو طلب کیا تھا۔ مولانا جانے کے لیے تیار تھے لیکن عین وقت پر ایک ناگریز وجہ سے شریک نہ ہو سکے۔ اس جلسے کے لیے جو خطبہ مولانا موصوف نے تحریر فرمایا تھا، وہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ مرتب)

میرے نوجوان رفیقو اور دوستو! آپ نے ضرور سنا ہوگا کہ ایک بڈھا کہیں جا رہا تھا، چلتے چلتے رستے میں کہیں ٹھوکر لگی اور گر پڑا۔ اس وقت بے ساختہ اس کی زبان سے نکلا، ’’ہاے رے جوانی۔‘‘ پھر جھٹ اٹھ کر ادھر ادھر نظر ڈالی اور جب دیکھا کہ کوئی نہیں ہے تو کہنے لگا، ’’جوانی ہی میں کون سے تیر مارے تھے۔‘‘ جب میں ایسے قابل نوجوانوں کی جماعت اپنے سامنے دیکھتا ہوں جیسی کہ اس وقت میرے سامنے ہے تو مجھے وہ شریف بڈھا یاد آتا ہے۔ ایک دوبار نہیں بارہا میں نے یہ کہتے سنا ہے کہ پہلے کے نوجوان (یعنی تیس چالیس برس پہلے کے) زیادہ قابل ہوتے تھے۔ میں نے اس کی ہمیشہ تردید کی۔بات یہ ہے کہ انسان طبعاً گزشتہ سے بہت حسن ظن رکھتا ہے، اس کی تکلیفوں اور مصیبتوں کو تو بھول جاتا ہے اور خوبیاں یاد رہ جاتی ہیں۔ مثلاً یہی وجہ ہے کہ سارے ہندستان میں بچوں کا کوئی اچھا مدرسہ نہیں۔ بچپن میں جو ہمیں قدم قدم پر مشکلات پیش آئی تھیں وہ بڑے ہوکر بھول گئے اور یاد رہا تو یہ کہ مکتب میں خوب پٹتے تھے اور جب ہمیں پڑھانے کا موقع ملا تو ہم نے بھی خوب کان امیٹھے اور قمچیاں لگائیں۔ یہ کچھ انسان کی فطرت سی ہو گئی ہے کہ گزشتہ کو سراہتا اور حال کو سراپتا ہے۔میں اپنے تجربے کی بنا پر وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج کل کے نوجوانوں میں جو عقل و شعور اور مستعدی ہے، وہ میرے طالب علمی کے زمانے کے نوجوانوں میں نہیں تھی۔ اس لیے مجھے آپ کی جوانی پر نہیں، آپ کی ذہانت، طباعی اور مستعدی پر رشک آتا ہے۔ میں جب کسی قابل نوجوان کو دیکھتا ہوں تو میراجی باغ باغ ہو جاتا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی مجھے یہ حسرت ہوتی ہے کہ کاش اس عمر میں اگر مجھ میں اتنی قابلیت ہوتی تو میں بہت کچھ کر سکتا تھا، لیکن گیا وقت اور خاص کر جوانی کبھی واپس نہیں آتی تو پھر میں نے گزشتہ کی تلافی، نہیں بلکہ کفارے کی یہ تدبیر سوچی کہ بدنصیبی سے جب میں خود کچھ نہ کر سکا تو لاؤ میں نوجوانوں کی خدمت کیوں نہ کروں جو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔صاحبو! یہی وجہ ہے کہ میں آپ کے ارشاد پر آپ کی خدمت میں اس طرح کھنچا چلا آیا جیسے حاتم طائی کے قصے میں بعض جانہار کوہ ندا کی صدا پر کھنچے چلے جاتے تھے۔ادب ہو یا زندگی کا کوئی اور شعبہ، اس میں ترقی پذیری کی قوت اسی وقت تک ہوتی ہے جب تک اس میں تازگی، جدت اور توانائی پائی جاتی ہے اور تازگی اور جدت اسی وقت پیداہوتی ہے جب کہ ہمارے پیش نظر کوئی خاص مقصد ہو، جس پر ہمارا ایمان ہو اور جس کے حصول کے لیے ہم ہر قسم کی قربانی کے لیے آمادہ ہوں۔ جب کوئی خاص مقصد پیش نظر نہیں ہوتا تو جدت، تازگی اور توانائی بھی رخصت ہو جاتی ہے اور زندگی کے کاموں میں یکسانی اور مساوات سی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک ہی لکیر کو پیٹتے پیٹتے انسان اکتا جاتا ہے اور اس بیزاری کے عذاب سے بچنے کے لیے وہ عیاشی اور طرح طرح کی لغویات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس وقت آثار حیات گھٹنے لگتے ہیں، قویٰ میں انحطاط پیدا ہونے لگتا ہے، دل میں امنگ نہیں رہتی، دل و دماغ کے ابھارنے کے لیے طرح طرح کے محرکات استعمال کیے جاتے ہیں لیکن وہ سب عارضی اور بےنتیجہ ہوتے ہیں۔ آخر اسی عالم نیم جانی میں اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ یہ اصول افراد، اقوام اور زندگی کے ہر شعبے پر صادق آتا ہے۔کہتے ہیں کہ روما کی عظیم الشان سلطنت کی تباہی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اہل روماجو کچھ کرنا تھا کر چکے اور ان کے پیش نظر کوئی خاص مقصد نہیں رہا تھا۔ اس لیے وہ لہو ولعب اور عیاشی میں مبتلا ہو گئے، اولوالعزمیاں جاتی رہیں، حوصلے پست ہو گئے، کاہلی میں جس کا دوسرا نام عیاشی ہے، مزہ آنے لگا، انحطاط نے استقبال کیا اور زوال نے انہیں لے جاکر دفن کر دیا۔ہمارے اصول، عقائد اور خیالات کیسے ہی اعلیٰ اور پاکیزہ کیوں نہ ہوں اور خواہ وہ ہمیں کیسے ہی عزیز کیوں نہ ہوں اگر زمانے کے اقتضا کے مطابق ان میں جدت اور تازگی پیدا نہیں کی جائےگی تو ایک روز بند پانی کی طرح ان میں سڑاند پیدا ہونے لگےگی اور ان میں ایسے زہریلے جراثیم پیدا ہو جائیں گے جو ان کی ہلاکت کا باعث ہوں گے۔ بندریا کو اپنے بچے سے بڑی محبت ہوتی ہے۔ یہ محبت جنون کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ بچہ مر جاتا ہے تو بھی اسے جدا نہیں کرتی اور اپنے سینے سے چپٹائے پھرتی ہے۔ آخر اس میں تعفن پیدا ہو جاتا ہے اور اس کا ایک ایک عضو گل سڑ کر گرنے لگتا ہے۔ یہی حال افراد، اقوام اور زندگی کے ہر شعبے کا ہوتا ہے۔ جب لوگ اپنے مرغوب رسم و رواج اور توہمات کو سینے سے چپٹائے پھرتے ہیں تو وہ تو خیر زمانے کی دستبرد سے گل سڑکے گر ہی جاتے ہیں مگر وہ خود بھی انہیں کے ساتھ فنا ہو جاتے ہیں۔ایک شخص کو تسخیر جن کا بہت شوق تھا اور اس کا عمل حاصل کرنا چاہتا تھا۔ بہت دنوں کے بعد اسے ایک عامل ملا، بڑی خوشامد اور خدمت کے بعد یہ عمل سکھایا۔ سنا ہے کہ یہ عمل بہت سخت ہوتا ہے اور اکثر اس میں جان کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس نے شوق کی دھن میں یہ سب تکلیفیں سہیں اور جن کو تسخیر کرکے رہا۔ جن دست بستہ حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ فرمائیے کیا ارشاد ہے، جو حکم ہوگا اسے بسروچشم بجا لاؤں گا۔ عامل صاحب بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اپنی دانست میں بڑے مشکل مشکل کام اسے بتائے، جن نے جھٹ پٹ کر دیے اور کام لینے کے لیے حاضر ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ جن کبھی نچلا نہیں بیٹھتا۔ ہر وقت اس کے لیے کچھ نہ کچھ کام ہونا چاہیے۔ اگر کام نہ دیا جائے وہ ستانا شروع کرتا ہے اور شرارتیں کرنے لگتا ہے۔عامل صاحب کچھ نہ کچھ کام دیتے رہے مگر اس جن کے لیے جو ہر وقت ’’ھل من مزید‘‘ کی صدا دیتاتھا، اتنے کام کہاں سے لاتے۔ اب جن نے انہیں ستانا شروع کیا اور وہ بہت پریشان ہوئے۔ آدمی تھے ذہین، انہیں ایک تدبیر بہت خوب سوجھی۔ کہا کہ ہمارے صحن میں جو املی کا درخت ہے اس پر اترو اور چڑھو اور چڑھو اور اترو۔ اور جب تک ہم حکم نہ دیں برابر اترتے چڑھتے رہو۔ کچھ دن تو وہ اترتا چڑھتا رہا، لیکن کب تک۔ آخر اس قدر عاجز اور تنگ ہواکہ چیخ اٹھا اور عامل صاحب کی دہائی دینے لگا کہ خدا کے لیے مجھے اس عذاب سے بچائیے، آپ جو کہیں گے وہی کروں گا۔عامل صاحب نے حکم دیا کہ اچھااب اترنا چڑھنا بند کر دو۔ جب ہم کسی کام کا حکم دیں تو اسے کرو، ورنہ چپ چاپ یہاں بیٹھے رہو۔ بے کار بیٹھے بیٹھے وہ اکتا جاتا تو شرارت کی سوجھتی، مگر معاً املی کے درخت کا خیال آتا تو وہیں دبک کے بیٹھ جاتا۔ اب بےکاری کی وجہ سے جن صاحب کا یہ حال تھا کہ کونے میں بیٹھے اونگھا کرتے اور منہ پر مکھیاں بھنکتی رہتی تھیں۔یہ قصہ جھوٹ سہی، لیکن نہایت سبق آموز ہے۔ اول یہ کہ کام کی یک رنگی اور یکسانی ایسی بد بلاہے کہ جن جیسی ہستی جس میں توانائی اور مستعدی کوٹ کوٹ کے بھری ہے وہ بھی اس سے عاجز آ جاتی ہے۔ دوسرے بیکاری انسان کے قوی ٰکو مضمحل اور بےکار اور شوق اور امنگ کو خاک میں ملا دیتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں حیات کی دشمن ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ توانائی آدمی کو نچلا نہیں بیٹھنے دیتی، اس کا اقتضا ہے کہ کچھ نہ کچھ کیا جائے۔ یہ انسان کی تمیز و شعور پر ہے کہ کون سا ایسا کام کرے جو ممد حیات ہو۔ اگر وہ املی کے پیڑ پر اترتا چڑھتا رہا تو سمجھو کہ کھو گیا۔ممد حیات وہ کام ہیں جن میں تازگی اور جدت ہوتی ہے اور جو اپنے اثر سے لوگوں کے خیالات اورعمل میں تازگی اور جدت پیدا کرتے اور نئی راہیں سمجھاتے ہیں اور شوق کومردہ نہیں ہونے دیتے۔ آپ نے ادب کو اپنا مقصد قرار دیا ہے۔ یہ بھی ممد حیات کاموں میں سے ہے۔ اس سے بڑے بڑے کام نکل سکتے ہیں، دلوں میں امنگ اور خیالات میں انقلاب پیدا کر سکتے ہیں۔ زندگی کو زیادہ پرلطف اور زیادہ کارآمد بنا سکتے ہیں اور ملک و قوم کو ترقی کے رستے پر لگا دینے میں مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن ادب وہی کارآمد ہو سکتا اور زندہ رہ سکتا ہے جو اپنے اثر سے حرکت پیدا کرنے کی قوت رکھتا ہے اور جس میں زیادہ سے زیادہ اشخاص تک پہنچنے اور ان میں اثر پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ ترقی پذیر ادب کی یہی تعریف ہو سکتی ہے۔لیکن ترقی کا رستہ بہت دشوار گزار، تنگ اور کٹھن ہے۔ یہاں قدم قدم پر مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ بڑے صبر اور استقلال اور بہت پتا مارنے کا کام ہے۔ باوجود ان اوصاف کے وہ حاصل نہیں ہوتی جب تک کہ آزادی نہ ہو۔ ترقی سرزمین آزادی ہی میں پھول پھول سکتی ہے۔ ادیب کو اگر آزادی نہیں تو اس کی حالت مفلوج کی سی ہے۔ ادیب کوحق حاصل ہے اور اسے آزادی ہونی چاہیے کہ جو چاہے لکھے۔ لیکن اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کو بھونڈے پن سے لکھے۔ ’’بھونڈے پن‘‘ کے لفظ میں ادب کے ظاہر اور باطن دونوں کی قباحتیں آ جاتی ہیں۔ اگر اس سے بچنا ممکن ہے تو وہ ادب قابل مبارک باد ہے۔ ترقی پسند مصنفین کو یہ نکتہ پیش نظر رکھنا چاہیے ورنہ ان کی بہت سی محنت اکارت جائےگی۔آپ کو اپنے خیالات صرف تعلیم یافتہ طبقے تک محدود نہیں رکھنے چاہئیں بلکہ اس کثیر طبقے تک بھی پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے جو ان سب نعمتوں سے محروم ہے، جو آپ کو حاصل ہیں۔ تعلیم عام نہ ہونے سے اس میں آپ کو بہت دشواری پیش آئےگی۔ لیکن پھر بھی ان کا خیال مقدم ہے۔ اس لیے ان کے دلوں میں جو ابھی بہت سی آلائشوں سے پاک ہیں، ان خیالات کا جمانا آسان ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جو کہلاتے تو تعلیم یافتہ ہیں مگر زنگ آلود ہیں۔ اس پر آپ کو اپنی کانفرنس میں غور کرنا ہوگا۔ یہ نہایت دشوار کام ہے اور اس کام کو انجام دینے والے بہت مشکل سے ملیں گے۔زندگی مسلسل ہے، اسی طرح ادب بھی مسلسل ہے۔ اس لیے گزشتہ کا مطالعہ حال کے سمجھنے میں اور ماحول کا مشاہدہ حال کی اصلاح اور آیندہ کی تیاری میں مدد دےگا۔ ممکن ہے کہ زندگی کے بعض شعبوں میں سراسر تخریب اور استیصال کارآمد ہو۔ یعنی جب تک ہر پرانی چیز کو جڑ سے اکھاڑ کر نہ پھینک دیا جائے، نئی تحریک سرسبز نہیں ہو سکتی۔ اس کی مثال عموماً یہ دی جاتی ہے کہ جب تک پرانا بوسیدہ مکان بالکل نہ ڈھا دیا جائے، نئی تعمیر نہیں بن سکتی۔ یہ تشبیہ ممکن ہے کہ بعض صورتوں میں درست ہو لیکن ادب کے معاملے میں یہ کامل طور پر منطبق نہیں ہو سکتی۔ ترقی کے لیے تخریب ضروری ہو مگر لازم نہیں۔ادب میں بیشک آپ کو نئے اسلوب، نئے خیالات پیدا کرنے ہوں گے اور بہت سے پرانے مضر خیالات اور توہمات کی بیخ کرنی ہوگی۔ سوکھی شاخیں چھانٹنی ہوں گی اور مرجھائی ہوئی ٹہنیوں کو پانی دے دے کر پھر ہرا کرنا ہوگا اور درخت کی جڑمیں کھاد اور پانی ڈال کر سرسبز کرنا ہوگا تاکہ نئی کونپلیں اور نئے پتے پھوٹیں۔ لیکن اگر آپ درخت ہی کو جڑ سے کاٹ ڈالیں گے تو کام کا موقع کہاں رہےگا۔ ہمیں پچھلوں کے کام اور ان کی محنتوں سے حسب ضرورت ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے اور ایسے ادب کی بنیاد ڈالنی چاہیے جو ہماری زندگی میں تازگی پیدا کرے اور ہماری جدید ضروریات کے مطابق ہو۔ اور پھر آیندہ آنے والے اپنی نئی ضروریات اور حالات کے مطابق اس میں ترمیم و اصلاح کریں اور یہ سلسلہ برابر جاری رہے۔مجھے معاف فرمائیےگا، میں دیکھتا ہوں کہ اکثر ترقی پسند نوجوان اپنے خیالات کو صحیح طور پر ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ جو دل میں ہے وہ بیان میں نہیں آتا۔ ممکن ہے کہ وہ یہ جواب دیں کہ ہمارے خیالات اس قدر اعلیٰ ہیں کہ عام فہم سے بالا ہیں۔ میں اسے تسلیم نہیں کرتا اور غالباً کوئی بھی تسلیم نہ کرےگا۔ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے کہ کیوں ایسا ہے۔یہ ایک عام اور معمولی بات ہے لیکن کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہر پرانی چیز بری نہیں اور ہر نئی اچھی نہیں ہوتی۔ رجعت یا ترقی کوئی نئی چیز نہیں۔ رجعت پسند اور ترقی پسند ہر زمانے میں ہوئے ہیں، اب ہیں اور آیندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ رجعت اور ترقی اضافی چیزیں ہیں۔ کائنات کا ہر ذرہ حرکت میں ہے اور ہر چیز پر تغیر کا عمل جاری ہے۔ رجعت یا ترقی ہر زمانے کے حالات اور ماحول کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ یہ خیال کہ ہر چیز، جس کا تعلق گزشتہ زمانے سے ہے، سراسر رجعت سے آلودہ ہے، صحیح نہیں۔ محض اس بنا پر کہ ہم لوگ آگے بڑھ گئے ہیں گزشتہ سے اپنا تعلق بالکل قطع نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا کرنا اپنی جڑیں کاٹنا ہے۔ ہم گزشتہ کے وارث ہیں۔ اگر کوئی وارث اپنے ارث سے بے خبر ہے یا کماحقہ واقفیت نہیں رکھتا تو خواہ وہ کیسا ہی ذہین، مستعد اور انقلاب پسند کیوں نہ ہو، نہ کوئی اصلاح کر سکتا ہے، نہ خود فائدہ حاصل کر سکتا ہے، اور نہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔اس لیے ہرترقی پسند ادیب کا فرض ہے کہ گزشتہ تاریخ اور گزشتہ ادب کا غور سے مطالعہ کرے اور دیکھے کہ ہمارے ادب میں کہاں تک آگے بڑھنے کی صلاحیت ہے، کن چیزوں کا ترک کر نامناسب ہے اور کن ذرائع سے اسے بلند مقام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جو چیز آپ کوارثاً ملی ہے، اگر آپ اس کے حسن وقبح سے واقف نہیں تو اصلاح کس کی اور انقلاب کیسا؟ لیکن ’’میراث پدر خواہی علم پدر آموز‘‘ ہی کافی نہیں، ’’علم پسرآموز‘‘ بھی لازم ہے۔ ہم صرف حال ہی کے سامنے جواب دہ نہیں، آئندہ کے بھی جواب دہ ہیں۔ اس لیے زندگی کے جس شعبے میں بھی ہم ہاتھ ڈالیں، ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہمارے اعمال وافعال کا اثر آئندہ نسلوں پر کیا ہوگا، کیونکہ آئندہ زمانے میں ہمارے کاموں کی تنقیح وتنقید اسی اصول پر ہوگی۔دوسری چیز جو آپ کے قابل غور ہے، یہ ہے کہ جس زبان میں آپ اپنے خیالات ادا کرنا چاہتے ہیں اس پر پوری قدرت ہو۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہم اپنے گزشتہ ادب کو اس نظر سے مطالعہ کریں گے۔ زبان کیا ہے؟ خیال کے ادا کرنے کا آلہ۔ اگر کسی کاریگر کا اوزار بھدا ہے تو اس کا کام بھی بھدا ہوگا۔ یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ہماری زبان میں ہمارے خیالات نہیں سما سکتے۔ کوئی زبان ایسی نہیں جس میں خیال ادا کرنے کی صلاحیت نہ ہو، بشرطیکہ کسی میں ادا کرنے کی صلاحیت بھی ہو۔ زبان بھی ارثاً ملی ہے اور جب تک ہم اس پر قدرت حاصل نہ کریں گے ہم اپنے خیالات ادا کرنے پر قادر نہ ہوں گے۔ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم اپنے خیال کو صحیح طور پر ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس خیال کو ہم نے ادا کرنے کی کوشش کی ہے، شاید وہ ہمارا نہیں، اصل نہیں نقل ہے، شاید مستعار ہے، کہیں سے بہتا ہوا چلا آیا ہے، ہمارے دل پر اس کا گہرا نقش نہیں، اس نے ہمارے دل میں گھر نہیں کیا۔ ورنہ ممکن نہ تھا کہ ادا نہ ہوتا۔ خیال اپنا ہو، یعنی جسے ہم نے خود سوچ کے پیدا کیا ہے یا کسی دوسرے کا، لیکن ہمارے دماغ میں اس قدر صاف اور روشن ہونا چاہیے کہ جس وقت ہم لکھنے بیٹھیں تو صفحۂ کاغذ پر موتی کی طرح ڈھلکتا ہوا نظر آئے۔ لیکن جب خیال ہی ہمارے دماغ میں صاف اور روشن نہیں ہوتا تو بیان لامحالہ تاریک اور مبہم ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر ادیب اپنی زبان کی صرف ونحو اور لغت سے واقف ہوتا ہے۔ لیکن اس میں سب سے بڑی چیز لفظ کا صحیح استعمال ہے۔ اسے معمولی بات نہیں سمجھنا چاہیے۔ لکھنے والوں میں کم ایسے ہیں جو الفاظ کے صحیح استعمال سے واقف ہیں۔لفظ ایک بڑی قوت ہے اور اس کا برمحل استعمال خیال میں قوت پیدا کر دیتا ہے۔ جو اس گر سے واقف نہیں اور لفظ کے صحیح اور برمحل استعمال کو نہیں جانتا اس کا بیان اکثر ناقص، ادھورا اور بے جان ہوتا ہے۔یہ دو چیزیں ہیں، ایک ادب کا ظاہر یعنی زبان اور دوسرے ادب کا باطن یعنی خیال۔ اگرچہ ان کو الگ الگ بیان کیا جاتا ہے لیکن یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتیں، یہ لازم وملزوم ہیں۔ انہیں کے میل سے اسلوب بیان یعنی اسٹائل بنتا ہے۔ اس لیے ترقی پسند نوجوانوں کی خدمت میں میری عرض ہے کہ وہ اپنے ادب اور زبان کا گہرا مطالعہ کریں ورنہ ان کی ساری کوششیں رائیگاں جائیں گی اور ان کے خیالات خواہ کیسے ہی بلند اور انقلاب انگیز کیوں نہ ہوں، پت جھڑ کی طرح ہوا میں بکھر جائیں گے۔ادب وزبان کے علاوہ جو ایک بات میں آپ کی خدمت میں عرض کرنی چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ترقی پسند جماعت کو اپنے مقاصد کے عمل میں لانے کے لیے اخلاقی آزادی اور اخلاقی جرأت سے کام لینا پڑےگا۔ اگر آپ نے مقبولیت اور ہر دل عزیزی یاکسی قسم کی امداد حاصل کرنے یا اپنی تعداد بڑھا کر دکھانے کی خاطر ذرا بھی رجعت پسندی کی طرف میلان ظاہر کیا تو یاد رکھیے کہ معقول پسند اور حقیقی ترقی پسند لوگ آپ سے بدگمان ہو جائیں گے۔ اور اگر ابتدا میں یہ بدگمانی پیدا ہو گئی تو اس کے رفع کرنے میں بڑی مدت درکار ہوگی۔ بنیاد اگر بگڑ گئی تو عمارت کا خدا حافظ ہے۔ آپ کے ایک قابل رکن کا یہ کہنا کہ ’’ہم بعض حضرات کی رجعت پسندی سے ناواقف نہیں ہیں مگر ابھی ہم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ صرف اپنے بل پر کھڑے ہو سکیں، تنہا اپنے عقائد کی پاکی یا استقامت سے ہمیں کوئی اطمینان نہیں ہوتا، اس لیے کہ اگر یہ بڑھ کرسماج کے خیالات اور بنائے عمل نہیں بن سکتے تو اسی طرح بیکار رہیں گے جس طرح کوئی مذہبی عقیدہ‘‘ سراسر غلط ہی نہیں گمراہ کن ہے۔اگر آپ رجعت پسندی کے سہارے ترقی کی طرف جانا چاہتے ہیں تو شروع ہی میں سیدھے رستے سے بھٹک جائیں گے اور کبھی منزل مقصود تک پہنچنا نصیب نہ ہوگا۔ حیرت ہے کہ آپ رجعت اور ترقی کوایک ساتھ کیسے نبھا سکتے ہیں۔ شاید تیل اور پانی کاایک جاہو ناممکن ہے لیکن رجعت اور ترقی کا ایک جا ہونا کسی طرح ممکن نہیں۔ یہ کھلی مداہنت اور ریاکاری ہوگی اور یہی ایک چیز آپ کی ترقی پسندی کو بےوقعت کر دےگی۔ اگر آپ کو’’اپنے عقائد کی پاکی اور استقامت‘‘ پر اطمینان نہیں تو بہتر ہے کہ آپ اس خیال کو ترک کر دیں۔ رجعت پسندی کے بل کھڑے ہونے سے بہتر ہے کہ آپ نہ کھڑے ہوں۔حقاکہ باعقوبت دوزخ برابر استرفتن بپاے مردی ہمسایہ دربہشتسعدی اس خیال میں آپ سے کہیں بڑھا ہوا ہے۔ وہ تو ہمسایہ کی امداد سے بھی بہشت میں جانا پسند نہیں کرتا اور آپ رجعت پسندوں کی مدد سے جنت ترقی میں جانا چاہتے ہیں۔ یہ خیالات نہایت پستی اور کم ہمتی کے ہیں۔ آپ کو کوئی ضرورت تعداد بڑھانے اور شاخیں پھیلانے کی نہیں۔ اگر آپ کے ساتھ بارہ بلکہ بارہ بھی نہیں، تین چار بھی ثابت قدم اور راسخ العقیدہ شخص ہیں تو ہندستان بھر میں انقلاب پیدا کر سکتے ہیں۔ ایک ایک آدمی نے دنیا کو ہلا دیا ہے اور آپ اتنی تعداد میں ہوکر بھی رجعت پسندوں کی آڑ لیتے پھرتے ہیں۔آپ کا کام اس وقت وہی ہے جو اٹھارہویں صدی عیسوی میں انسائیکلوپیڈیسٹ (Encyclopeedist) نے فرانس میں کیا تھا۔ انہوں نے رجعت پسندوں کے ہاتھوں کیسی کیسی سختیاں جھیلیں، قید میں رہے، جلاوطن کیے گئے۔ کتاب چھپنے کی ممانعت کر دی گئی، آخری پروفوں میں تحریفیں کی گئیں اور اصل مسودے جلا دیے گئے۔ یہ سب سہا مگر اپنے عزم سے نہ پھرے۔ اس کتاب میں صرف معلومات ہی نہیں فراہم کی گئی تھیں بلکہ انسان کی روشن خیالی، خیالات کی انقلاب انگیزی اور توہمات وتعصبات کی بیخ کنی کا سامان بھی جمع کیا گیا تھا۔ اس کے مؤلفین کی غایت نظریات نہیں تھی بلکہ عمل تھا، ادبی شان دکھانی مقصود نہ تھی بلکہ ان کامنشا زندگی کی تعمیر تھی۔یہ لوگ سچے مجاہد تھے۔ باوجود مسخ ہونے کے اس کتاب کا اثر صرف فرانس ہی تک نہیں رہا بلکہ دور دور تک پہنچا۔ انیسویں صدی میں جو عقلیت کی ہوا ہندستان میں چلی تھی، اس کا اگر آپ سراغ لگائیں گے تو اس کا سلسلہ بھی انہیں چند پاک نفوس تک پہنچےگا۔ اس کتاب کو اب کوئی نہیں پڑھتا اور بہت ہی کم ایسے لوگ ہوں گے جنہیں اس کی کبھی زیارت نصیب ہوئی ہوگی، لیکن اس کا اثر اور فیض اب تک جاری ہے۔ یہ صرف چند نفوس تھے۔ مگر دھن کے پکے اور عقیدے کے سچے تھے۔ ان کی زندگی کا مطالعہ کیجیے، ان کے کاموں کو دیکھیے اور ان کے قدم بقدم چلنے کی کوشش کیجیے۔ کوئی وجہ نہیں کہ آپ کامیاب نہ ہوں۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.