خطبۂ صدارت بہار اردو کانفرنس

خطبۂ صدارت بہار اردو کانفرنس
by مولوی عبد الحق
319569خطبۂ صدارت بہار اردو کانفرنسمولوی عبد الحق

‏(یہ خطبہ مولانا عبد الحق صاحب سیکرٹری انجمن ترقیٔ اردو ہند نے صوبہ بہار کی اردو کانفرنس میں، جو سید عبدالعزیز صاحب بیر سٹرایٹ ‏لاوزیر تعلیم کی سرپرستی میں منعقد ہوا تھا، پڑھ کر سنایا۔ ۱۹۳۶ء۔ مرتب)

اے صاحبو!‏ایک مشہور مثل ہے، ’’دور کے ڈھول سہانے۔‘‘ یہ بالکل سچ ہے۔ لیکن جب یہی ڈھول بہت قریب آ جاتے ہیں توسخت ناگوار ہوتا ہے اور ‏کان پھٹنے لگتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ مثل مجھ پر صادق نہ آئے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے ذمہ دار ہمارے محترم جناب سید عبدالعزیز ‏صاحب، میرے مہر بان قاضی عبدالودود صاحب اور امتیاز کریم صاحب ہوں گے، جو اس بدعت کے مر تکب ہوئے ہیں۔ لیکن میں آپ کو ‏یقین دلاتا ہوں کہ میں ہر حال میں آپ کی اس قدر افزائی اور عزت کا تہ دل سے شکر گزار ہوں۔ کاش میں اس دلی شکر کو الفاظ میں پوری ‏طرح ادا کر سکتا۔قدرت کی بعض نعمتیں ایسی ہیں کہ ان پر ہماری زندگی کا انحصار ہے، وہ نہ ہوں تو ہماری زندگی کا خاتمہ ہو جائے، جیسے ہوا، پانی، تنفس وغیرہ ‏؛لیکن عام یا بافراط ہونے سے ہمیں ان کی کچھ قدر نہیں ہوتی۔ یہی حال زبان کا ہے۔ بچپن سے لے کر مرتے دم تک یہ ہمارے ساتھ ہے ‏اور روزہ مرہ کے استعمال کی وجہ سے وہ ایک معمولی چیز ہو گئی ہے اور اس کی وہ قدر نہیں کرتے جو کرنی چاہئے۔ ورنہ دیکھا جائے تو زبان کا انسان ‏کی زندگی میں بہت بڑا دخل ہے۔ اس کے نتائج اور اثرات نہایت عجیب اور دور رس ہیں۔ایک معمولی بات ہے جسے ہر شخص جانتا ہے کہ حیوان اور انسان میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ اگرچہ جانوروں کے بھی زبان (جیب) ہے اور ‏بعض کی ہم سے بہت بڑی ہوتی ہے لیکن ان میں قوت گویائی نہیں۔ یہ خاص انسان کی امتیازی شان ہے۔ یہ محض اس کے خیالات کے اظہار ‏کا آلہ ہی نہیں بلکہ اس کے خیالات کے بنانے اور سنوارنے کا بھی آلہ ہے۔ وہ انسان کی زندگی کا جز ہے۔ اس لیے آدمی کو اپنی زبان عزیز ہوتی ‏ہے۔ وہ ہماری زندگی کے ہر شعبے میں دخیل اور کارفرما ہے۔ اگر ہم اس کے تحفظ وترقی کے لیے جدوجہد کریں، جان لڑا دیں تو یہ ہمارافرض ‏ہے۔ اور اس فرض سے غفلت کسی مذہب وملت میں روا نہیں۔ ‏اردو ایک مخلوط زبان ہے۔ یہ زبان کی ایک خاص قسم ہے۔ دنیا میں ایسی متعدد زبانیں ہیں۔ اس قسم کی زبانو ں کے وجود میں آنے کے مختلف ‏اسباب ہوتے ہیں۔ منجملہ دیگر اسباب کے ایک سبب کشور کشائی ہے۔ مسلمان بھی اس ملک میں آریاؤں کی طرح فاتح کی حیثیت سے آئے ‏تھے۔ وہ فارسی بولتے تھے اور اہل ملک دیسی زبان۔ ان حالات میں جیسا کہ دستور ہےمعاشرتی، ملکی اور کاروباری ضرورت سے مسلمان بول ‏چال میں دیسی لفظ استعمال کرنے کی کوشش کرتے تھے اور ہندو فارسی الفاظ۔ فاتحوں کی تعداد اہل ملک کے مقابلے میں بہت کم تھی اور اس ‏لیے وہ اہل ملک کی زبان سیکھنے پر مجبور تھے۔ دو چار نسلوں کے بعد ان کی اولاد ملکی زبان بخوبی بولنے لگی۔ لیکن فاتح قوم کی زبان کا اثر بھی ملکی ‏زبان پر برابر پڑتا رہا۔ اور اس اختلاط نے ایک گمنام بولی کو جو عوام بلکہ دیہات کی بولی تھی، ایک شائستہ اور مستقل زبان کے رتبے تک ‏پہنچا دیا جسے آپ چاہے اردو کہیے یا ہندستانی۔اس اختلاط نے اس میں بڑی قوت پیدا کر دی ہے اور دونوں کی (اور ضمناً کسی دوسری زبانوں کی بھی) خوبیوں کوایک جا جمع کر دیا ہے۔ یہی ‏وجہ ہے کہ اس میں شیرینی اور دل نشینی کے ساتھ شان و شکوہ، وسعت کے ساتھ گہرائی، سادگی کے ساتھ پرکاری موجود ہے اور ہر قسم کے ‏خیالات اور جذبات کے ادا کرنے پر قادر ہے۔جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں (جیسا کہ حال میں مہاتما گاندھی وغیرہ نے فرمایا ہے) کہ یہ زبان مسلمان بادشاہوں نے بنائی اور حکومت کے زور ‏سے پھیلی، وہ نہ صرف زبان کی تاریخ سے ناواقف ہیں بلکہ اصول لسانیات سے بھی ناآشناہیں۔ یہ زبان فطرتی اصول پر خود بخود بنی اور ‏حالات و ضروریات نے اسے اور بڑھایا اور پھیلایا۔ مسلمان بادشاہوں نے کبھی اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ ان کی سرکاری اور درباری اور ‏دفتری زبان آخر تک فارسی رہی۔ اس میں شک نہیں کہ دکن کے بعض بادشاہوں نے اس زبان میں نظمیں لکھیں لیکن ان کے دربار ‏اور دفتر کی زبان بھی فارسی تھی اور اگر وہاں کسی زبان کو دخل ہوا بھی تو وہ مقامی زبان تھی نہ کہ اردو یا ہندستانی۔جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے یہ محض معاشرتی ضرورتوں کی بدولت وجود میں آئی اوراس کے بنانے میں زیادہ تر حصہ خود اہل ملک یعنی ‏ہندوؤں کا تھا۔ ایک عالم لسانیات کا قول ہے کہ ’’غیر زبان جو کسی قوم کو سیکھنی پڑتی ہے مخلوط نہیں ہوتی بلکہ اس کی اپنی زبان غیر زبان کے اثر ‏سے مخلوط بن جاتی ہے۔‘‘ یہ قول بالکل صحیح معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ کبھی ہم غیرزبان کے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس بات کا خاص طور ‏پر خیال رکھتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہواس میں ہماری زبان کا لفظ یاہماری زبان کا رنگ نہ آنے پائے۔ جیسا کہ آج کل انگریزی زبان کا حال ‏ہے۔ جب ہم انگریزی زبان بولتے یا لکھتے ہیں تو اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ حتی الامکان کوئی ہندستانی لفظ نہ آنے پائے اور نہ ہندستانی ‏قسم کی انگریزی ہو، جو ’’بابو انگلش‘‘ کے نام سے بدنام ہے۔ جہاں تک ممکن ہوتا ہے، اہل زبان کی تقلید کی جاتی ہے بلکہ انگریزی لب ولہجہ کی ‏نقل اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔برخلاف اس کے اپنی زبان میں گفتگو کرتے وقت ہم بیسیوں انگریزی لفظ بے تکلف بول جاتے ہیں اور لکھتے وقت بھی لکھ جاتے ہیں اور اکثر ‏اوقات ہمارے جملوں کی ساخت انگریزی نما ہوتی ہے۔ بعینہٖ یہی صورت اس وقت فارسی کے ساتھ پیش آئی۔ اول تو یونہی فاتح قوم کی زبان ‏کی طرف میلان ہوتا ہے۔ دوسرے دفتر اور دربار سرکار کی زبان ہونے کی وجہ سے اس کا سیکھنا اور پڑھنا ضروری تھا۔ مکاتب اور مدارس میں ‏ہندو مسلمان بچے ساتھ ساتھ فارسی پڑھتے تھے۔ پھر باہمی ربط وضبط اور میل جول نے اس میں او راضافہ کر دیا۔کچھ ضرورت کی مجبوری سے، کچھ اظہار علمیت کے لیے، کچھ بطور فیشن اور محض مشیخت کی خاطر ان ہندوؤں نے بے تکلف فارسی عربی ‏الفاظ اپنی زبان میں داخل کرنے شروع کیے۔ آج عربی فارسی الفاظ کی زیادتی کی جو شکایت ہے تو اس معاملے میں زیادہ تر نہیں تو برابر کے ‏قصوروار ہندو بھی ہیں۔ ظاہر ہے جو زبان وہ دفتروں میں استعمال کرتے، کتابوں میں پڑھتے، اپنی تالیفات میں لکھتے اور بول چال میں بولتے ‏تھے، اس کے الفاظ خود بخود زبانوں پر چڑھ جاتے تھے اور وہ ملکی زبان میں بھی دانستہ و نادانستہ، بالارادہ اور بلاارادہ داخل ہوتے چلے گئے۔ان تمام اسباب سے ایک ایسی زبان ظہور میں آئی جو اسی دیس کی تھی اور اسی دیس والوں کی بدولت بنی، بڑھی اور پھیلی۔ اور اس لیے اسے ‏ملک کی عام زبان ہونے کا حق ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ہندومسلم اتحام اور یک جہتی کی عزیز اور مقدس یادگار ہے۔ ایسی صورت میں ایک ‏یونیورسٹی کے ہندی سنسکرت کے لکچرار کااسے غیر ملکی زبان کہنا یا اردو کے ایک قابل ہندو ادیب کا اسے بین الاقوامی یاسفارتی زبان سے ‏موسوم کرنا سراسر ناانصافی ہے۔یہ امر خاص مسرت کا باعث ہے کہ تقریباً ہر صوبہ اس بات کا مدعی ہے کہ اردو زبان نے وہیں جنم لیا۔ اہل پنجاب کو یہ دعویٰ ہے کہ اردو ‏کا بیج اسی خطے میں اپجا۔ اہل دلی کا خیال ہے کہ یہ دلی اور اس کے قرب و جوار کی زبان تھی جو بن سنور کراردو کہلائی۔ صوبۂ متحدہ والے کہتے ‏ہیں کہ میرٹھ اور اس کے آس پاس کے دیہات کی بولی پر فارسی کی قلم لگائی گئی اور اس سے اردو پیدا ہوئی یا بقول ایک فریق کے برج بھاشا ‏یا سورسینی بولی سے اس کا ظہور ہوا۔ اہل گجرات کہتے ہیں کہ کچی دھات تھی، ہم نے اسے نکھارا، بنایا اور سنوارا۔ اہل دکن کا دعویٰ ہے کہ ‏اس زبان نے ادبی شان یہاں پیدا کی اور فروغ پایا۔ بہار والے چاہیں تو وہ بھی گجرات و دکن کی طرح اس بات کا دعویٰ کر سکتے ہیں کہ انہوں ‏نے ابتدا سے اس زبان کی غور وپرداخت کی اور وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کا کلام پیش کر سکتے ہیں، جس کا ‏تعلق آٹھویں صدی ہجری سے ہے اور جسے ہم اس زمانے کی اردو کہہ سکتے ہیں۔اس سے اردو کی مقبولیت اور وسعت کا اندازہ ہو سکتا ہے اور قبول عام ہی سب سے قوی دلیل اور سب سے بڑی سند ہے۔ وہ خودرو نونہال ‏جو دوآبۂ گنگ وجمن اور اس کے قرب وجوار میں پھلا پھولا، اقتضائے زمانہ کی ہوا اس کے بیج دور دور تک اڑا لے گئی، ہر سرزمین کی آب ‏ہوا جہاں وہ پہنچے، انہیں راس آئی اور ہر خطے کی زمین ان کے موافق نکلی۔ انہیں بے حقیقت بیجوں سے لہلہاتے ہوئے شاداب پودے نکلے۔ ‏قدرت نے ان بیجوں کی حفاظت کی، کلے پھوٹنے پران کی پرورش کی اور ہمارے اسلاف نے اپنی آبیاری سے ان کی غور وپرداخت فرمائی۔ وہی ‏بے حقیقت بیج اور وہی نازک پودے آج سرسبز تناور درخت ہیں جن کے پھول پھل سے ہمیں اس وقت ذوق تکلم حاصل ہے۔اس کی مقبولیت کا پتا اس سے بھی چلتا ہے کہ بعض علاقے کے لوگوں نے اس سے اپنی خصوصیت جتانے کے لیے اسے اپنے سے منسوب ‏کر لیا تھا۔ چنانچہ اہل گجرات ایک زمانے میں اسے گجری یا گجراتی کہتے تھے اور اہل دکن دکنی۔ ابتدا میں اسے ہندی کے نام سے موسوم ‏کیا جاتا تھا۔ ایک تو اس وجہ سے کہ یہ اس ملک کی زبان سے نکلی تھی اور اپنے وقت کی کھڑی بولی سے پیدا ہوئی تھی، دوسری بڑی وجہ یہ تھی ‏کہ یہ نام اسے فارسی کے مقابلے میں اور فارسی سے امتیاز کرنے کے لیے دیا گیا تھا جو اس وقت عام طور پر رائج تھی۔ چنانچہ یہ لفظ اس زبان ‏کے لیے قدیم دکنی اور گجراتی اردو میں بھی انہیں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ وہ معذرت کے طور پر اکثر اپنی تصانیف میں یہ لکھتے ہیں کہ جو ‏لوگ فارسی عربی سے بہرہ نہیں رکھتے، ان کے لیے ہم نے یہ کتاب ہندی میں لکھی ہے۔ یایہ کہ یہ کتاب فارسی میں تھی، عام لوگوں کی ‏خاطر ہندی میں ترجمہ کی۔یہ لفظ مصحفی کے زمانے تک انہیں معنوں میں استعمال ہوتا رہا۔ چنانچہ مصحفی اپنے دو تذکروں کو تذکرۂ ہندی یاہندی گویاں کے ناموں سے ‏یاد کرتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس نے فارسی گو شعرا کا تذکرہ الگ لکھا تھا لیکن یہ نام چل نہ سکا۔ درحقیقت یہ کوئی نام نہ تھا۔ یہ اس وقت ‏استعمال کیا گیا تھاجب وہ کٹھالی میں پڑی گل رہی تھی اور اس نے کوئی خاص حیثیت اوردرجہ حاصل نہیں کیا تھا۔ محض فارسی سے امتیاز کرنے ‏کے لیے اسے ہندی کہہ دیا کرتے تھے۔ دوسرے ہندی کا لفظ بہت عام تھا، کسی خاص زبان کے لیے معین نہیں ہو سکتا تھا۔ بعض فارسی اور ‏یو رپی مصنفین نے مرہٹی اور ہندستان کی بعض دوسری زبانوں کو بھی ہندی ہی سے موسوم کیا ہے۔ جب اس بولی کو خود ایک زبان کی حیثیت ‏حاصل ہو گئی اور اس نے زبانی بول چال سے نکل کر ادب میں قدم رکھا تو یہ لفظ خود بخود متروک ہو گیا۔اس کے ساتھ ساتھ ریختہ کا لفظ استعمال ہونے لگا۔ یہ لفظ اس وقت استعمال ہواجب اس میں ادبی شان پیدا ہو چلی تھی، لیکن زیادہ تر شعرو‏سخن اور ادبی کلام کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یہ بھی فارسی سے امتیاز پیدا کرنے کے لیے لکھا اور بولا جاتا تھا۔ چنانچہ جن مشاعروں میں صرف ‏اردو کلام پڑھا جاتا تھا انہیں ’’مراختہ‘‘ کہنے لگے۔ یہ اصطلاح صرف چند ہی روز رہی۔ ریختہ کا لفظ بھی کبھی کبھی مرزاغالب کے ابتدائی زمانے ‏تک استعمال ہوتا رہا لیکن جب یہ زبان عام ہو گئی تو یہ لفظ خو د بخود خارج ہو گیا۔سترھویں نیز اٹھارھویں صدی میں پرانے فیشن کے یورپین اور انگریز اسے مورز‎(Moors)‎‏ کہتے تھے، جس طرح احاطہ ٔ مدراس اور بمبئی کے ‏بعض مقامات میں عوام اسے مسلمانی سے موسوم کرتے ہیں۔ لیکن یہ نام غلط فہمی پر مبنی تھے اور اس لیے اب بالکل متروک ہیں۔ گول کنڈہ ‏کا اردو شاعر اور ادیب وجہی اپنی کتاب ’’سب رس‘‘ میں جو سنہ ۱۰۴۵ھ کی تصنیف ہے اسے ’’زبان ہندستان‘‘ کہتا ہے۔ سترھویں اور ‏اٹھارھویں صدی عیسویں میں یورپین اور انگریزی مصنفین کی تحریروں میں ہم اس کا نام ’اندوستان‘ ’اندوستانز‘، ‏‏’ہندوستان‘ یا ’ہندوستانز‘ دیکھتے ہیں اور اسی زمانے میں یہ لفظ ’’ہندستانی‘‘ ہو جاتا ہے جواب تک قائم ہے اور صحیح معنوں پر دلالت کرتا ہے۔اردو کا لفظ بعد میں آیا۔ میر تقی میرا سے اپنے تذکرے میں ’’زبان اردوئے معلیٰ شاہجہاں آباد دہلی‘‘ لکھتے ہیں۔ اس کے بعد زبان اردو کہنے ‏لگے۔ رفتہ رفتہ زبان کا لفظ اڑ گیا اور خود ’اردو‘ زبان کے معنوں میں آنے لگا۔ مصحفی اور انشاکے زمانے میں اس کا رواج عام ہو گیا تھا۔ یہ لفظ ‏اپنی اصل کا پتا دیتا ہے۔ اردو یعنی شاہی کیمپ میں مختلف قوموں اور مختلف زبان کے لوگ تھے اور انہیں کے باہمی اختلاط سے یہ مخلوط زبان ‏ظہور میں آئی اور سارے ملک میں پھیل گئی۔ اب اردو اور ہندستانی میں یہ فرق کیا جاتا ہے کہ اردو ادبی زبان ہے اور ہندستانی عام زبان جو ‏خواص و عوام سب سمجھتے ہیں۔لفظ اردو کی مقبولیت کی ایک وجہ اور بھی ہے کہ یہ لفظ بولنے، لکھنے اور پڑھنے میں سہل ترین ہے۔ بولنے میں اس لیے کہ اس میں کوئی ثقیل ‏حرف نہیں اور بلا تکلف زبان سے ادا ہو جاتاہے۔ پڑھنے میں اس لیے کہ ہر حرف الگ الگ لکھا جاتا ہے۔ لکھنے میں اس لیے کہ چاروں حرف ‏ابجد کے سب سے چھوٹے اور آسان حرف ہیں، کہیں دائرہ یا کشش یا جوڑ نہیں اور لکھنے میں بھی الگ الگ رہتے ہیں۔ اور اس پر طرہ یہ کہ نقطے ‏کا نام نہیں، سب بے نقط ہیں۔ہندی اور اردو کا جھگڑا آج سے تقریباً ساٹھ سال پہلے اٹھا تھا۔ لیکن اس زمانے کے مذہبی اور سیاسی اختلافات نے اسے اور چمکا دیا۔ پہلے ایک ‏آدھ جگہ تھا، اب سارے ہندستان میں پھیل گیا ہے۔ پہلے ہندی اردو ہی کا قضیہ تھا، اب ہندی، ہندستانی اور اردو کے ساتھ ’’ہندی ‏ہندستانی‘‘ کا ایک نیا شاخسانہ کھڑا کیا گیا ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس نے بہت معقول فیصلہ کیا تھا کہ ملک کی زبان ہندستانی ہے خواہ رسم خط کچھ ‏بھی ہو۔ لیکن تعجب اور افسوس ہے کہ جس مدبرانہ دماغ نے یہ تجویز سوچی تھی اور جنہوں نے اس پر آمنا وصدقنا کہا تھا، سب سے پہلے اب ‏وہی اس سے انحراف کر رہے ہیں۔ مہاتما گاندھی کی جدت پسند طبیعت نے ایک نیا لفظ ’’ہندی ہندستانی‘‘ وضع کر کے گویا جلتی آگ میں تیل ‏ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ جب مہاتما جی سے دریافت کیا گیا کہ اس جدید مرکب لفظ سے آپ کی کیا مراد ہے تو فرمایا کہ ’’ہندی جو آیندہ چل ‏کر ہندستانی ہو جائےگی۔‘‘ تو یہ زبان نہ ہوئی آیندہ کا پروگرام ہوا۔قطع نظر اس کے ذرااس تعریف پر غور کیجیے جو مہاتما گاندھی نے ہندی ہندستانی کی فرمائی ہے یعنی وہ ہندی جو آگے چل کر ہندستانی ہو جائے‏گی! اس کے یہ معنی ہوئے کہ اس وقت ہم ایسی زبان اختیار کرنی چاہتے ہںر جو سالہا سال تک کئی صدی کی کوشش، جدوجہد اور محنت ومشقت کے بعد ہندستانی ہو جائےگی۔ ہندستانی تو پہلے ہی سے موجود ہے پھر صدیوں تک انتظار کرنے اور سالہاسال کی مصیبت اور کھکھیڑ ‏اٹھانے سے حاصل؟ جب مدتوں کی محنت اور مصیبت اور دماغ سوزی کا نتیجہ یہی ہے کہ نئی زبان ہندستانی بن جائے تو ہندستانی جوبنی بنائی ‏رکھی ہے کیوں نہ ابھی اسی کو اختیار کر لیا جائے۔ مہاتماجی کی یہ منطق معمولی سمجھ سے باہر ہے۔ جلسے میں بیٹھ کر رزولیوشن منظور کرا لینے ‏یا ووٹوں کے شمار کرا لینے سے زبانیں نہیں بنتیں۔مسٹر کنھیالال منشی جو بھارتیہ ساہتیہ پرشد کے روح ورواں اور اس کے جنرل سکرٹری ہیں، انہوں نے حال ہی میں ایک چٹھی ٹائمز آف ‏انڈیا میں لکھی ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’زمانۂ حال کی اکثر زبانیں سنسکرت زبان کے تابع ہیں اور سنسکرت ہی کے زیر اثر ‏نشوونما پا رہی ہیں اور اس لیے سوائے یوپی کے اکثر صوبوں میں لنگوا فرینکا بن رہی ہے۔ اس کا رجحان زیادہ تر سنسکرت لغات کی طرف ہے۔‘‘ ‏جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ دراوڑی زبانوں سے قریب ہونے کی خاطر بول چال کی زبان سے دور ہونا چاہتے ہیں۔ میں نے جو بھارتیہ ‏ساہتیہ پرشد میں ہندستانی کی حمایت کی تو اس کی یہ وجہ تھی کہ وہ بول چال کی زبان ہے۔اس میں براہ راست سنسکرت سے لفظ نہیں آئے بلکہ پراکرت اور اپ بھرنش الفاظ لیے گئے ہیں، جو اس وقت بول چال میں رائج تھے اور اب ‏بھی ہیں۔ مثلاً (جیساکہ آج کل بعض ہندی ادیبوں نے لکھنا شروع کیا ہے) اگر ہم سورج کی جگہ سور یہ، آنکھ کی جگہ اکشی، پانی کی جگہ جل ‏یاجلم، پانو کی جگہ پدیا باردت کی جگہ شام چوں لکھنے لگیں تو اس سے نہ تو زبان میں کوئی خوبی پیدا ہوتی ہے اور نہ اسلوب زبان میں کوئی ‏حسن، بلکہ زبان بگڑتی اور خراب ہوتی ہے اور دشواری کی وجہ سے عام زبان سے دور ہوتی چلی جائےگی۔ مصنوعی زبانیں کاغذ کی ناویں ‏ہوتی ہیں جو بہت دن نہیں چلتیں۔ ہم ہندی آگے بڑھنے کی بجائے ہمیشہ پیچھے ہٹنا جانتے ہیں۔ زمانۂ گزشتہ کی کچھ اصلی اور کچھ خیالی چمک ‏ہماری آنکھوں کو ہمیشہ خیرہ کرتی رہتی ہے۔ اب یہ جھگڑا ہندی اردو کا نہیں رہا بلکہ ہندستانی سنسکرت کا ہو چلاہے اور یہ اس سے بھی برا ہے۔یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ملک کی موجودہ فضانے زبان کے مسئلے کو پیچیدہ اور ناگوار بنا دیا ہے۔ کسی نے اس کا ناتا مذہب سے جوڑا ہے ‏اور کسی نے سیاست سے۔ یہ باتیں ہمیں ایک دوسرے سے دور کرنے والی ہیں۔ ہرزبان کو (خواہ وہ ہندی ہو یا اردو) ترقی کا حق حاصل ہے ‏لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسری زبان کی ترقی میں حائل ہو۔ ہمیں ایک دوسرے کوشبہ کی نظروں سے نہیں دیکھنا چاہیے اور ‏بجائے بدگمانی پیدا کرنے کے ان بدگمانیوں کو رفع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جو آج کل کے حالات نے پیدا کر دی ہیں۔ ہمیں ایک ‏دوسرے سے قریب ہونے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ آپس کے ملاپ اور میل جول سے ایک ایسی زبان پیدا ہو جائے جو ہم سب کی مشترک ‏مِلک ہو۔ زبان کا کوئی مذہب نہیں، اس کی کوئی ذات نہیں۔ جو کوئی اسے بولتا، پڑھتا، لکھتا اور سلیقے سے استعمال کرتا ہے، اسی کی زبان ہے ‏خواہ وہ کوئی ہو اور کہیں کا ہو۔حضرات! اس ملک میں ہر چیز ذات بن جاتی ہے۔ ہمارا ادب بھی ایک زمانے میں ذات کی حیثیت رکھتا تھا جسے اس کی ذات والے ہی ‏سمجھتے تھے۔ وہ صرف ایک طبقے میں محدود تھا او ر اس سے باہر اس کے سمجھنے والے بہت کم تھے۔ لیکن یہ خوشی کی بات ہے کہ اب میلان ‏سادہ نویسی کی طرف ہو رہا ہے۔ اس میں سب سے بڑا احسان سرسید احمد خاں مرحوم کا ہے۔ ان کی سلاست اور فصاحت مانی ہوئی ہے۔ وہ ‏مشکل سے مشکل مضمون کو ایسے صاف اور سیدھے الفاظ اور دل نشین پیرائے میں ادا کر جاتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔ بعد والوں نے اس ‏خوبی کی قدر نہ کی اور بعض مجبوریوں خصوصاً نئی تعلیم اور نئے خیالات کی پر زور رو کے باعث اور اپنی زبان کی طرف سے غفلت برتنے کے ‏سبب سے ہم کچھ دنوں کے لیے بہک گئے تھے۔ لیکن شکر کا مقام ہے کہ اب ہم پھر صحیح رستے پر آ رہے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ‏ادب کا مقصد کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔اصل یہ ہے کہ ادب زندگی کا جز ہے، ہماری تہذیب اور تمدن کا آئینہ ہے۔ جیسے ہماری زندگی کے حالات ہوں گے ویسا ہی ہمارا ادب ہوگا۔ دیکھ ‏لیجیے لکھنؤ کا فسانۂ عجائب اور دہلی کا قصۂ چہار درویش۔ دونوں میں دونوں کا تمدن صاف جھلک رہ اہے۔ زبان ہی ایک ایسا ذریعہ ہے کہ ہم اپنے ‏خیالات دوسرے تک پہنچا سکتے ہیں اور جس قدر زیادہ تعداد تک ہم اپنے خیالات پہنچا سکتے ہیں اسی قدر ہمارا حلقۂ اثر زیادہ وسیع ہوگا۔ جو شخص ‏اپنا کلام اور پیغام ہزاروں تک پہنچا سکتا ہے وہ اس سے بھی بڑا ہے اور جو کروڑوں تک پہنچا سکتا ہے وہ سب سے بڑا شخص ہے اور جو تمام بنی نوع ‏انسان تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے وہ سب سے بڑا انسان ہے۔ لیکن کلام لاکھوں کروڑوں انسانوں تک کس صورت میں پہنچ سکتا ہے؟ یہ اسی ‏صورت میں ممکن ہے کہ الفاظ سادہ اور د ل نشین ہوں اور خیالات میں گنجلک نہ ہو۔ دل کی آواز سادہ ہوتی ہے۔ کلمۂ حق ہمیشہ سادہ ہوتا ہے ‏جس کا جلوہ ہمیشہ سادگی ہی میں نمایاں اور دلکش ہوتا ہے۔زبان سیکھو، پڑھو اور لکھو لیکن اس کے ساتھ دل اور صداقت بھی پیدا کرو۔ جہاں دل میں درد اور صداقت نہیں، وہاں آواز میں بھی درد ‏اور صداقت نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ میر، نظیر اور حالی زیادہ مقبول ہوئے اور ناسخ، ذوق اور مومن کو وہ قبول عام نصیب نہ ہوا۔سادہ لکھنے کی ہدایت کرنا آسان ہے لیکن سادہ لکھنا نہایت دشوار ہے۔ لوگ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں لیکن یہ بہت غیر معمولی چیز ہے۔ یہ ‏بات علاوہ فطری استعداد کے بڑی مشاقی، بڑے تجربے، بہت مطالعے اور بہت مشاہدے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ صرف کامل ادیب ہی ‏اسے نبھا سکتے ہیں۔ سادہ لکھنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم اپنی تحریر میں سادہ اور سہل لفظ جمع کر دیں اور کوئی مشکل لفظ نہ آنے دیں۔ سادگی ‏کے ساتھ جب تک تحریر میں لطف، کشش اور اثر نہ ہو، وہ ادب میں شمار نہیں ہو سکتی۔ ایک پھسپھسی، بےجان اور بےاثر تحریر کا لکھنا نہ لکھنے ‏سے بدتر ہے۔ جب تک کلام میں لکھنے والے کی روح شریک نہ ہو، کلام مردہ ہوگا اور دلوں میں گھر نہیں کر سکتا۔ اگر آپ کے کلام میں سادگی ‏کے ساتھ صداقت، جدت، تازگی اور جوش ہے تو وہ آب رواں کی طرح موجیں مارتا ہوا بڑھتا ہوا چلا جائےگا اور اگر وہ دقیق الفاظ، پیچیدہ ‏استعارات و تشبیہات اور تکلف وتصنع کے بوجھ سے دبا ہوا ہے تو بحر مردار کے پانی کی طرح ساکن، مردہ اور بے حس ہوگا۔زمانۂ حال کے ایک بہت بڑے ادیب نے خوب کہا ہے کہ ’’سادگی اور صداقت تو ام ہیں اور حسن ان کی تیسری بہن ہے۔‘‘ یہی وہ سادگی ہے ‏جو سیدھی دل ودماغ میں جا بیٹھتی ہے۔ یہی وہ سادگی ہے جو دلوں کو لبھاتی اور گرماتی اور خیالات میں روشنی پیدا کرتی ہے۔ دنیا کے وہ کامل ‏اور اعلیٰ ادیب اور شاعر جن کاسکہ سارے عالم پر بیٹھا ہوا ہے، ان کے قبول عام کا راز اسی میں ہے۔ صدیاں گزر گئیں، جگ بیت گئے لیکن ان ‏کی مقبولیت میں فرق نہیں آیا۔حضرات! دنیا کی کوئی زبان نقص سے خالی نہیں۔ بعض زبانیں ہماری زبان سے بھی زیادہ بے قاعدہ، پیچیدہ اور دشوار ہیں لیکن دشواری کی ‏وجہ سے کوئی اپنی زبان ترک کرکے دوسری زبان اختیار نہیں کر لیتا۔ وہ ہمارے اعضا ء و قویٰ کی طرح ہماری زندگی کا جز ہے۔ جس طرح ہم ‏دیدہ ودانستہ اپنے اعضاء و قویٰ کو کاٹ کر نہیں پھینک سکتے، اسی طرح ہم اپنی زبان کو بھی اپنے سے جدا نہیں کر سکتے۔ کچھ مدت ہوئی جاپان ‏میں بہت بڑا بھونچال آیا تھا، جس میں ہزارہا جانوں کا نقصان ہوا لیکن ایسی بیش بہا چیزیں بھی تلف ہو گئیں جو جان سے زیادہ عزیز تھیں۔ ‏جب دلی کی ایک بڑی بی نے یہ سنا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہاں اکثر زلزلے آتے رہتے ہیں تو بڑی سادگی سے فرماتی ہیں کہ ’’موئے اس ملک ‏کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔‘‘ اسی طرح اگر کوئی آپ سے یہ کہے کہ آپ کی زبان میں فلاں نقص یابے قاعدگی ہے، اسے چھوڑ کیوں نہیں ‏دیتے تو اس کے جواب میں سوائے اس کے کہ آدمی مسکراکر چپ ہو رہے اور کیا کہہ سکتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر زندہ شے کے لیے نشوونما اور تغیر لازم ہے۔ یہ قانون قدرت ہے۔ لیکن اگر اس قانون کے ‏ساتھ انسانی سعی شریک نہ ہوگی تو بہت جلد وہ ترقی رک جائےگی۔ نشوونما کی ترقی کے لیے انسانی سعی بھی لازم ہے۔ جو چیزیں ہمیں بچپن ‏میں بہت عزیز تھیں، وہ بڑے ہوکر بے حقیقت معلوم ہوتی ہیں۔ بچپن میں جو کتابیں ہم بڑے شوق سے پڑھتے تھے، بڑے ہوکر ان میں ‏وہ دل کشی نہیں رہتی۔ یہی حال ادب کا ہے۔ زمانۂ گزشتہ کا ادب جو ہمارے اسلاف کی یادگار ہے اور ہمارا قومی سرمایہ ہے، اس کا مطالعہ ‏اور تحفظ ہمارا فرض ہے۔ لیکن اس کا اکثر حصہ ویسا کارگراور پراثر نہیں رہا جیسا اس وقت تھا۔ وہ اس زمانے کے اقتضا کے مطابق تھا اور اب ‏زمانے کا اقتضا کچھ اور ہے۔ جس طرح عمر کے ساتھ انسان کا ذوق بدلتا رہتا ہے، اسی طرح زمانے کا ذوق بھی بدلتا رہتا ہے۔ اس لیے ہمیں ‏صرف اپنے اسلاف کی پونجی ہی پر قانع نہیں رہنا چاہیے بلکہ ہمیں خود بھی اپنے زمانے کے حالات کی روسے ترقی اور اصلاح میں (جہاں تک ‏زبان کی ساخت اجازت دے) لگاتار اور بےدریغ کوشش کرتے رہنی چاہیے۔اس میں شک نہیں کہ ہمارے لیے گزشتہ زمانے میں بہت کچھ ہے لیکن سب کچھ نہیں۔ بے شبہ گزراہوا زمانہ قابل احترام ہے لیکن آئندہ ‏زمانہ اس سے بھی زیادہ احترام کے قابل ہے۔ جس شخص کی نظر ہمیشہ پیچھے کی طرف رہتی ہے اور آگے نہیں دیکھتا وہ کبھی دنیا میں سرسبز نہیں ‏ہو سکتا۔ اس لیے اصلاح کی طرف سے کبھی غافل نہیں رہنا چاہیے۔ جو چیزیں فرسودہ اور بیکار ہو گئی ہیں، ان کے بدلنے اور ترک کرنے میں ‏اور جو کارآمد اور مفید ہیں، ان کے اختیار کرنے میں کبھی نہیں چوکنا چاہیے۔حال ہی میں میرے ایک ذی علم دوست نے مجھ سے پوچھا کہ کیا اردو میں ایسی صلاحیت ہے کہ وہ اعلیٰ ادب پیدا کر سکے؟ میں نے کہا اردو ‏میں کیا ہرزبان میں یہ صلاحیت موجود ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ان حضرات میں بھی وہ صلاحیت اور شوق صادق ہوناچاہیے جواسے اعلیٰ ‏ادبی زبان بناناچاہتے ہیں۔ اردو ادب اس درجہ تک پہنچ گئی ہے کہ اگر ہم چاہیں اور ہم میں صلاحیت ہو تو ہم اس میں نازک سے نازک ‏خیال اور ہر فن اور علم کے معلومات کو ادا کر سکتے ہیں۔ اگر ہم نے اسے صرف اس کی قسمت پر یا قدرت کی مہربانی پر چھوڑ دیا تو یہ ‏لہلہاتا ہوا چمن ایک دن جھاڑ جھنکاڑ ہو جائےگا۔ اگر ہم اسے اپنی زبان سمجھتے ہیں، اگر ہم سچائی کے ساتھ اس کی ترقی کے خواہاں ہیں تو کوئی دقیقہ ‏کوئی تکلیف اور محنت اس کے بڑھانے اور بنانے میں اٹھا نہیں رکھنی چاہیے۔ایک طرف تو ہمیں اس کی اشاعت میں کوشش کرنی چاہیے کیونکہ جب تک پڑھے لکھوں کی تعداد زیادہ نہ ہوگی اور جب تک زبان کی تعلیم ‏عام نہ ہوگی، آپ کااعلیٰ اور مفید سے مفید ادب بھی بیکار ہوگا اور کیڑوں کی نذر ہو جائےگا۔ دوسری طرف زبان کو مستحکم اور قوی بنانے کی ‏ضرورت ہے۔ اس سے میری مراد یہ ہے کہ اس میں ہرفن اور علم کی کتابیں ہوں، دنیا کی بہترین تصانیف کے ترجمے ہوں، تخلیقی ادب جس ‏کی کمی ہے، پیدا کیا جائے اور ان مصنفوں اور ادیبوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو اس کام کے اہل ہیں۔ اگر ہم اس کے لیے آمادہ ہیں اور اس کی ‏خاطر تکلیف اٹھانے اور ایثار کرنے کے لیے تیار ہیں تو ہمارا دعویٰ صحیح ہے ورنہ محلوں میں بیٹھ کر خالی دعوے کرنا اور اپنی زبان کو سراہنا ‏اپنے منہ میاں مٹھو بننا اور دوسروں کی نظروں میں اپنے آپ کو حقیر بنانا ہے۔حال ہی میں ایک مؤرخ نے جس نے دنیا کے تمدن پر بہت معقول کتاب لکھی ہے، مسئلہ تمدن پر بڑی گہری نظر ڈالی ہے اور اس کے تمام ‏پہلوؤں پر بحث کرنے کے بعد آخر میں ساری کتاب کا نچوڑ اس ایک چھوٹے سے جملے میں ادا کر دیا ہے ‏ ‎(Man makes himself) ‎‏ یعنی ‏آدمی خود اپنے کو بناتا ہے۔ یہی میں زبان کے متعلق کہتاہوں کہ اس کا بنانا اور بگاڑنا ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم جیسا چاہیں گے ویسی بنے گی اور ‏گزشتہ زمانے میں بھی جیسا ہم نے چاہا ویسی بنی۔ لیکن زبان کے بنانے میں یہ نکتہ یاد رکھیے کہ ملک کی عام اور مقبول زبان وہی ہو سکتی ہے ‏جسے زیادہ سے زیادہ تعداد سمجھے۔ اگر آپ اس اصول کو پیش نظر نہ رکھیں گے تو آپ کی زبان سکڑتے سکڑتے ایک محدود حلقے میں بند ہوکے ‏رہ جائےگی۔ ہندستانی یااردو کو اسی لیے برتری ہے کہ اسے ملک کے زیادہ سے زیادہ اشخاص بولتے یا سمجھتے ہیں۔حضرات! ہمیں یہ زبان اس لیے عزیز ہے کہ یہ ہماری بول چال کی زبان ہے۔ ہمیں یہ زبان اس لیے عزیز ہے کہ یہ ہندستان کی دو بڑی ‏قوموں کے اتحاد اور یکجہتی کی عزیز یادگار ہے۔ ہمیں یہ اس لیے عزیز ہے کہ یہ ہمارے تمدن، ہماری معاشرت، ہمارے دل و دماغ کے نتائج، ‏ہمارے مادی اور روحانی خیالات کی حامل ہے۔ ہمیں یہ اس لیے عزیز ہے کہ اس میں ہمارے اسلاف کی صدیوں کی محنت وجانکاہی، دماغی ‏وذہنی کاوشوں کا نچوڑ ہے۔ ہمیں یہ اس لیے عزیز ہے کہ یہ ہمارے بزرگوں کی مقدس وراثت ہے۔ اگر اس پر بھی ہم اس کی قدر نہ کریں اور ‏اس کے بنانے سنوارنے اور بڑھانے میں اپنی پوری ہمت صرف نہ کر دیں اور اس کی ترقی و نشوونما میں جان نہ لڑادیں تو ہم سے بڑھ کر کوئی ‏ناخلف نہ ہوگا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.