خطبۂ صدارت شعبۂ اردو ہندستانی اکیڈمی، الہ آباد

خطبۂ صدارت شعبۂ اردو ہندستانی اکیڈمی، الہ آباد
by مولوی عبد الحق
319566خطبۂ صدارت شعبۂ اردو ہندستانی اکیڈمی، الہ آبادمولوی عبد الحق

(یہ خطبہ ہندستانی اکیڈمی الہ آبادکے شعبہ ٔ اردو کے صدر کی حیثیت سے ۱۲ جنوری ۱۹۳۶ء کوپڑھاگیا۔)

جناب صدر! حضرات!اردو زبان و ادب کا جدید دور گزشتہ صدی کے آغاز سے شروع ہوتا ہے۔ اس میں چار بڑی باقاعدہ اور منظم تحریکیں عمل میں آئیں۔(۱) فورٹ ولیم کالج، کلکتہ۔(۲) دہلی کالج۔(۳) سائینٹفک سوسائیٹی علی گڑھ۔(۴) اورینٹل کالج، لاہور۔پہلی تحریک جو انیسویں صدی کے آغاز میں شروع ہوئی ملکی ضرورت پر مبنی تھی۔ انگلستان سے رایٹر(محرر) بالکل نو عمر آتے تھے، یعنی سولہ سے اٹھارہ برس کی عمر کے۔ ان میں سے اکثر کی تعلیم بہت محدود اور کم ہوتی تھی اور جو کسی کی تعلیم اچھی بھی ہوئی تو اسے مطالعہ اور تعلیمی ترقی کا موقع نہیں ملتا تھا۔ دوسرے جب یہ نو عمر پہلے پہل ہندستان میں آتے تو ان کی حالت لاوارثوں کی سی ہوتی تھی اور ابتدائے ملازمت میں کوئی ان کی اخلاقی اور مذہبی حالت کا نگراں اور رہنما نہیں ہوتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ نااہل اور کا ہل ہو جاتے تھے۔دوسری بڑی بات یہ تھی کہ ملازمینِ کمپنی کو مختلف السنہ و مذاہب اور اطوار و عادات کے لاکھوں آدمیوں کے عدالتی معاملات فیصلہ کرنے اور اضلاع کی مال گزاری کا انتظا م کرنا اور ان کے جھگڑے چکانے پڑتے تھے۔ عدالتوں میں وکالت اور تمام ضروری کاروائی دیسی زبان کے ذریعے سے ہوتی تھی۔ قانون انگریزی نہیں بلکہ یہاں کا قدیم رائج تھا۔ اس لیے مجسٹریٹوں کے فرائض بہت پیچیدہ اور اہم ہو گئے تھے۔ معمولی فرائض کے علاوہ ججوں، مجسٹریٹوں کو وقتاً فوقتاً گورنر با جلاس کونسل کے سامنے موجودہ قوانین کے متعلق ترمیمات وغیرہ پیش کرنی ہوتی تھیں جس کے لیے انہیں اہل ملک کی خواہشات اور ضروریات کا جاننا ضروری تھا۔سب سے بڑی چیز تجارت تھی جو ایسٹ انڈیا کمپنی کا اصل منشا تھا۔ اس سے پہلے یہاں کوئی فرما روا تاجر کے بھیس میں نہیں آیا تھا۔ اس لیے کسی کو گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ اجنبی تاجر کوٹھیاں بناتے بناتے قلعے تعمیر کرنے لگیں گے۔ تجارت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ تاجر ملک کی زبان اور حالات سے واقف ہو، اور جہاں تجارت کے ساتھ حکومت کا سایہ بھی ہو تو ملک کی زبان، اہل ملک کے عادات اور رسم و رواج اور ان کے آئین وقوانین کا جاننا لازم ہو جاتا ہے۔اسی زمانے میں ایک آفت اور پیدا ہو گئی تھی اور اس کا انسداد ضروری تھا۔ انقلاب فرانس نے تمام یورپ میں ہل چل مچا دی تھی، مذہبی اور سیاسی خیالات میں ہیجان پیدا ہو گیا تھا اور وہ خطرناک اصول رفتہ رفتہ کمپنی کے فوجی اور ملکی ملازمین تک بھی پہنچ گئے تھے۔ اس لیے بڑا اندیشہ تھا کہ کہیں یہ لوگ اس کا شکار نہ ہو جائیں۔ ایسے موقع پر دل و دماغ کو زیر کرنے کے لیے دو قوتوں سے کام لیا جاتا ہے۔ ایک حکومت، دوسری مذہب۔ اس لیے حکومت اور مذہب کے اصول سکھانے ضروری تھے تاکہ نووارد جوان عام روش سے بھٹکنے نہ پائیں۔ اسی وجہ سے مذہبی تعلیم کالج کا جزو تھی اور کوئی اعلیٰ عہدہ یا پروفیسری یا لکچراری کی خدمت کسی غیرعیسائی کو نہیں دی جاتی تھی اور ایسے عہدہ دار کو اقرار صالح کرنا پڑتا تھا کہ وہ نج کے طور پر یا علانیہ ایسے عقائد اور آراکی تعلیم نہ دےگا جو عیسائی مذہب یاچرچ آف انگلینڈ کی تعلیم وارکان کے خلاف ہو۔ان خیالات کو پیش نظر رکھ کر لارڈویلز لی نے ۴/ مئی سنہ ۱۸۰۰ء کو ایک مدرسہ بنام فورٹ ولیم کالج قائم کیا۔ ویلزلی بڑا اولوالعزم شخص تھا اور اس مدرسے کے متعلق اس کے بڑے بڑے خیالات تھے۔ وہ اس میں قدیم و جدید السنہ، ہندستان کی دیسی زبانوں، اصول، قانون، تاریخ عامہ و تاریخ ہندستان، نیچرل ہسٹری، کیمیا، معاشیات، ریاضی، نباتیات وغیرہ سب کی تعلیم دینا چاہتا تھا، مگر ’’پیسے کے لو بھی‘‘ کمپنی کے ڈائرکٹروں کے سامنے اس کی کچھ پیش نہ گئی۔ اس لیے اس کی تعلیم زیادہ تر دیسی اور مشرقی زبانوں تک محدود رہ گئی۔ ڈائرکٹر سرے سے کالج کے مخالف تھے، محض لارڈ ویلزلی کی سینہ زوری سے چند سال تک یہ مدرسہ قایم رہا۔یہ کچھ بھی سہی لیکن اس میں مطلق شبہ نہیں کہ کالج نے دیسی زبانوں اور خاص کر ہندستانی زبان کے لیے بہت مفید کام کیا۔ اردو زبان میں سادہ اور روز مرہ کی زبان لکھنے کا ڈھنگ ڈالا اور مقفیٰ اور مسجع عبارت ترک کر دی گئی۔ کوئی پچاس سے اوپر کتابیں تیار ہوئیں اور طبع کی گئیں جن میں کچھ ترجمے تھے، کچھ تالیفات اور کچھ انتخابات جو قصص و حکایات، تاریخ و تذکرہ، لغات و صرف و نحو اور مذہب وغیرہ کے مضامین پر مشتمل تھے۔ کالج نے اردو زبان کے حق میں دو بڑے کام کیے۔ ایک تو روز مرہ کی زبان کو صفائی اور فصاحت کے ساتھ لکھنا سکھایا۔ دوسرے اس زمانے کے لحاظ سے لغت اور صرف و نحو پر جدید طرز پر کتابیں لکھنے کی کوشش کی گئی۔ اس میں ڈاکٹر جان کلگرسٹ کا بڑا ہاتھ تھا۔ اس کی بعض کتابیں اب بھی پڑھنے کے قابل ہیں اور اپنا جواب نہیں رکھتیں۔ ایک کام اس نے یہ کیا کہ نستعلیق ٹائپ کا مطبع قائم کیا اور کالج کی کتابیں اسی میں طبع ہونے لگیں۔یہ مسئلہ اب تک زیر بحث ہے اور اس میں جیسی کہ چاہیے کامیابی نہیں ہوئی۔ اگر یہ کالج قائم رہتا اور حسب ضرورت اس کے مقاصد میں توسیع ہوتی رہتی تو بڑی قابل قدر خدمت انجام دیتا۔دوسری تحریک دلی میں نمودار ہوئی۔ دہلی کالج کا ذکر ہندستان کے نظام تعلیم کے سلسلے میں نیز اردو زبان کی تاریخ میں ہمیشہ کیا جائےگا اور تعریف کے ساتھ کیا جائےگا۔ اگرچہ افسوس ہے کہ ہندستان کی تعلیمی تاریخ کے لکھنے والے اسے اکثر بھول جاتے ہیں۔ اس کی تین بڑی خصوصیتیں تھیں۔ ایک یہ کہ یہ پہلی درس گاہ تھی جہاں مشرق و مغرب کاعلم وادب ساتھ ساتھ پڑھایا جاتا تھا۔ اس ملاپ نے خیالات کے بدلنے، معلومات میں اضافہ کرنے اور ذوق کی اصلاح میں بڑا کام دیا اور ایک نئی تہذیب اور نئے دور کی بنیاد رکھی اور ایک نئی جماعت ایسی پیدا کر دی جس میں سے ایسے پختہ کار، روشن خیال اور بالغ نظر انسان اور مصنف نکلے جن کا احسان ہماری زبان اور سوسائٹی پر ہمیشہ رہےگا۔دوسری خصوصیت اس کی یہ تھی کہ ذریعہ ٔ تعلیم اردو زبان تھا۔ تمام مغربی علوم اردو ہی کے ذریعے پڑھائے جاتے تھے اور باوجود ان موانعات کے جو معترضین ذریعۂ تعلیم کی بحث میں ہر موقع پر پیش کرتے تھے، وہ نہایت کامیاب رہا۔ کالج کے پرنسپل اپنی ایک رپوٹ میں لکھتے ہیں کہ ’’مشرقی شعبے کا طالب علم اپنے مغربی شعبے والے حریف سے سائنس میں کہیں بڑھا ہوا ہے۔‘‘ علاوہ اس کے جن جن ماہران تعلیم اور قابل اصحاب نے کالج کا معائنہ کیا، انہوں نے اس کی تصدیق کی۔ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن احاطۂ بنگال اپنے تبصرہ ٔ تعلیمی بابت سنہ ۱۸۵۳ء میں لکھتے ہیں کہ،’’ایک مدت سے دلی کالج کی ایک خصوصیت ایسی چلی آ رہی ہے جو اسے بالائی اور زیریں صوبجات کے دوسرے کالجوں سے ممتاز کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہاں دیسی زبان (اردو) کے ذریعے تعلیم دی جاتی ہے اور یہ (امتیازی خصوصیت) خاص طور پر ریاضیات کی تمام شاخوں اور کم و بیش تاریخ اور اخلاق وفلسفہ کی تعلیم سے تعلق رکھتی ہے۔ اس طریقۂ تعلیم پر مسٹر بتروس نے اپنے زمانۂ پر نسپلی میں استقلال کے ساتھ عمل درآمد کیا اور ان کے جانشین ڈاکٹر سپرنگر نے اسی جوش کے ساتھ اسے جاری رکھا۔ یہ اب دہلی کالج کے نظام تعلیم کا ایک جزو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ مناسب یہ ہے کہ اسے آزادی کے ساتھ بڑھنے اور پھولنے پھلنے دیا جائے۔ چند سال بعد ہمیں اس کے نتائج کا دوسرے طریقے کے نتائج سے مقابلہ کرنے کا موقع ملےگا۔‘‘ افسوس یہ موقع کبھی نہ آیا۔تیسری خصوصیت یہ تھی کہ اس سے متعلق ایک ٹرانسلیشن سوسائٹی (مجلس ترجمہ) تھی جو کالج کے طلبہ کے لیے انگریزی سے اردو میں درسی کتابوں کے ترجمے کا کام انجام دیتی تھی۔ یہ ترجمے سب کے سب کالج کے اساتذہ اور طلبہ کے کیے ہوئے ہیں۔ اس مجلس کے ترجموں اور تالیف کی تعداد قریب سوا سو کے ہے جو تاریخ، جغرافیہ، اصول قانون، ریاضیات اور اس کی مختلف شاخوں، کیمسٹری، میکانیات، فلسفہ، طب، جراحی، نباتیات، عضویات، معاشیات وغیرہ علوم و فنون نیز ادبیات پر مشتمل ہیں۔ اس کالج نے صحیح طریقۂ تعلیم کو رواج دینے اور اردو کو علمی زبان بنانے میں عظیم الشان خدمت انجام دی اور اس زمانے کے لحاظ سے اس کا یہ کام نہایت قابل قدر ہے۔ اگر سنہ ۵۷ کی شورش میں اس کا شیرازہ نہ بکھر جاتا اور یہ کالج اسی اصول پر قائم رہتا اور زمانے کی ضروریات کے مطابق اس میں اصلاح و ترقی جاری رہتی تو آج ہماری زبان کہیں سے کہیں پہنچ جاتی۔اس کے بعد سنہ ۱۸۶۲ء میں سرسید احمد خاں مرحوم نے سائینٹفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی، جس کی غایت یہ تھی کہ علمی کتابیں انگریزی سے اردو میں ترجمہ کراکے مغربی لٹریچر اور مغربی علوم کا مذاق اہل وطن میں پیدا کیا جائے۔ اس سوسائٹی نے تقریباً چالیس علمی اور تاریخی کتابیں انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرائیں۔ دہلی کالج کے بعد یہ دوسرا ادارہ تھا جس نے اردو زبان میں علوم جدید کو منتقل کرنے اور اسے علمی زبان بنانے کی سعی کی۔ سرسید اسے انگریزی تعلیم پھیلانے سے بھی زیادہ ضروری اور مقدم سمجھتے تھے۔ انسٹیٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق بھی اس کے بچے تھے جنہوں نے ملک میں علمی ذوق اور روشن خیالی پھیلانے میں بڑا کام کیا۔سنہ ۵۷ کی شورش کے کچھ دنوں بعد جب علمی مرکز دہلی سے لاہور منتقل ہوا تو وہاں اوائل سنہ ۱۸۶۵ء میں ایک انجمن بنام ’’انجمن اشاعت مطالب مفیدہ پنجاب‘‘ قائم ہوئی جو بعد میں ’’انجمن پنجاب‘‘ کے نام سے موسوم اور مشہور ہوئی اور اس کی سعی سے اورینٹل کالج کی بنا پڑی جو بعد میں پنجاب یونیورسٹی کالج کے تفویض کر دیا گیا۔ یہ تعلیمی ادارہ بھی تھا اور تالیف و ترجمہ کی اکیڈمی بھی۔ مترجم زیادہ تر کالج کے معلمین اور اس کے رفقا تھے۔ ان صاحبوں نے مختلف علوم و فنون پر بہت سی انگریزی کتابوں کے ترجمے کیے۔ چند کتابیں تالیف بھی کیں اور بعض سنسکرت، عربی، فارسی کتابوں کے بھی ترجمے کیے۔اس میں ڈاکٹر لائٹنر کی کشش اور استقلال کو بہت بڑا دخل تھا۔ وہ انجمن پنجاب کے پریزنڈنٹ اور اور ینٹل کالج کے پہلے پرنسپل تھے اور سنہ ۱۸۸۶ ء تک اس خدمت پر مامور رہے۔ ان کے جانے کے بعد تالیف اور ترجمے کا کام سست پڑ گیا۔ اگرچہ پہلا سازور شور اور اہتمام نہیں رہا، تاہم یہ کالج اردو اور مشرقی زبانوں کی خدمت تعلیم اور امتحانات کے ذریعے سے انجام دے رہا ہے اور گواب وہاں کوئی شعبہ تالیف و ترجمہ کا نہیں مگر وہ سنت قدیم پروفیسرشفیع، پروفیسر اقبال اور پروفیسر شیرا نی کے دم سے زندہ ہے۔یہ چار تحریکیں جن کا سرسری ذکر میں نے آپ کی خدمت میں کیا ہے، گزشتہ صدی کی ادبی اور علمی ترقی میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج اور اورینٹل کالج نے اردو زبان کے لیے جو کام کیا وہ خاص ضرورت سے تھا یعنی درسی کتب کا بہم پہنچانا۔ مگر اس میں شک نہیں کہ اس میں بہت سی کتابیں ایسی بھی تھیں جو عام مطالعہ کے لیے بھی مفیدتھیں اور ان سے علم و ادب کے شائقین کو بہت فائدہ پہنچا۔ علاوہ معلومات میں اضافہ کرنے اور خیالات میں انقلاب پیدا کرنے کے سنجیدہ مضامین کے لکھنے کا اسلوب بھی رائج ہو گیا۔ سائینٹفک سوسائٹی کا مقصد عام تھا لیکن اس کا کام بھی دہلی کالج ہی کے نہج پر ہوا۔ان اداروں کے حالات پر غور کرنے سے البتہ ایک بات کھٹکتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہر ادارے نے از سر نو کام شروع کیا اور گزشتہ تحریکوں سے کوئی سلسلہ اور ربط قائم نہ ہو سکا۔ یعنی نہیں دیکھا کہ اس سے پہلے کیا کام ہوا، کون کون سی کتابیں لکھی اور ترجمہ کی گئیں، کون کون سے نئے الفاظ وضع کیے گئے اور کون سے ایسے پرانے الفاظ تھے جو نئی اصطلاحات کے لیے استعمال کیے گئے۔ ان کی کون سی چیزیں اختیار کر نے کے قابل ہیں اور کون سی قابل ترک۔ اس سے بڑی بصیرت ہوتی ہے اور کام میں آسانی ہو جاتی ہے۔ جس طرح پچھلوں کے اچھے کام اگلوں کے حق میں مفید ہوتے ہیں، اسی طرح ان کی غلطیاں کچھ کم مفید نہیں ہوتیں تاکہ آنے والے ان سے بچیں اور ان کا اعادہ نہ کریں۔میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانے میں جو ادارے زبان و ادب کی ترقی واشاعت کا کام کر رہے ہیں، وہ بھی انہیں غلطیوں میں مبتلا ہیں اور اس سے بھی بڑی غلطی یہ ہو رہی ہے کہ ان کا کام کسی اصول پر نہیں ہو رہا ہے۔ کوئی کتاب اچھی سی ہاتھ لگ گئی، اس کا ترجمہ کر لیا۔ کسی نے کوئی چیز لکھ کر بھیجی، کمیٹی نے پسند کی، چھپ گئی۔ کوئی تالیف شایع ہوئی، سفارش کے ساتھ پیش ہوئی، انعام دے دیا۔ کچھ لکچر دلوا دیے، کچھ جلسے کرلیے اور سب سے بڑا کارنامہ یہ کہ مشاعرے کا اہتمام کر دیا۔ گویا ہم اندھیرے میں چاند ماری کر رہے ہیں، لگا تو تیر نہیں تو تکا۔ اس طرح سے کام نہیں ہوتے، ان حرکتوں سے زبان اور ادب نہیں بنتا، ان طریقوں سے آپ خیالات میں انقلاب اور طبائع میں جدت نہیں پیدا کر سکتے۔اس سے بھی بڑی کوتاہی بلکہ معصیت جس کا ارتکاب یہ ادارے کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ ان اداروں میں باہمی اتحاد اور ارتباط نہیں ہے۔ ہر ایک نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا رکھی ہے۔ جب مقصد ایک ہے، کام ایک ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم کبھی کبھی سر جوڑ کر نہ بیٹھیں، اپنے کاموں پر نظر نہ ڈالیں اور آیندہ کے لیے اپنے کام کا کوئی ایسا نقشہ تیار نہ کریں جو حقیقی طور پر ہمارے ادب کے حق میں مفید ہو۔ اس اتحاد عمل، امداد باہمی اور تقسیم کار سے کام میں سہولت اور توسیع اور عمل میں قوت پیدا ہوگی، نیز بہت سے ایسے مسائل حل ہو جائیں گے جو اس وقت ہماری توجہ کے محتاج ہیں۔ اس طرح سال میں ایک آدھ بار باہم مل بیٹھنے سے اور بہت سی کار آمد باتیں سوجھ جائیں گی جو فرداً فرداً غور کرنے سے خیال میں نہیں آتیں۔ لیکن یہ مجلسیں ہنگامے کی خاطر نہیں بلکہ کام کے لیے ہونی چاہییں اور ان میں صرف انہیں کو دعوت دی جائے جو اہل نظر اور صاحب رائے ہیں۔ بعد میں ان کی تجویزیں اور فیصلے اطلاع عام اور تنقید کے لیے شایع کیے جائیں تاکہ ضرورت ہوتو ان فیصلوں پر نظر ثانی کی جا سکے۔حاشا وکلا میرا مقصد کسی ادارے کو الزام دینا نہیں، ہرادارہ اپنی بساط اور فکر کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور مفید کام کر رہا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ موجودہ حالت میں جس طرح کام ہو رہا ہے، اس میں بہت سا وقت، محنت اور روپیہ رائیگاں جاتا ہے۔ اگر ہم متفقہ طور پر کام کی نوعیت، کام کی تقسیم، اس کی ترقی و اشاعت اور جدید ضرورت کے متعلق غور کرکے کچھ امور کے کرلیں گے اور ان کے عمل میں لانے کی کچھ تدبیریں بھی سوچ لیں گے اور ان کے انجام دینے کے وقت کا بھی تعین کرلیں گے تو یقین ہے کہ ہم اتنے ہی وقت میں، اسی قدر محنت اور روپیہ کے صرف سے بہت بڑا اور بہت بہتر کام کرسکیں گے۔میں یہ ذاتی تجربے کی بنا پر عرض کرتا ہوں۔ انجمن ترقیٔ اردو ایک مدت تک اٹکل پچو، کام کرتی رہی۔ ایک عرصے کے بعد مجھے تجربہ ہواکہ اس طرح بے اسلوبی سے کام کرنا کچھ زیادہ مفید نہیں، ایک منظم ادارے کا کام، جس کا مقصد زبان وادب کی ترقی ہے، اس سے بہتر و افضل ہونا چاہیے۔ چنانچہ اب ہم نے ایک خاص اصول پر کام کرنا شروع کیا ہے۔ مثلاً ہم نے اردو شعرا کے تذکرے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مرتب کیے اور اس وقت تک بہت سے کم یاب اور نادر تذکرے شایع ہو چکے ہیں اور بعض ابھی زیر ترتیب ہیں۔ ان تذکروں سے اردو ادب کا ارتقا اور اس زمانے کی معاشرت کے متعلق بہت سی معلومات حاصل ہوتی ہیں اور بہت سی غلط فہمیاں اور غلط بیانیاں جو اب تک چلی آ رہی تھیں، ان کی بدولت دفع ہو گئیں۔ چنانچہ ان تذکروں کی اشاعت کے بعد اردو ادب کی تاریخ کے متعلق جو تحریریں اور کتابیں شائع ہوئی ہیں، ان کے مؤلفو ں نے ان سے استفادہ کیا ہے۔اسی طرح انجمن نے قدیم اردو ادب کے متعلق تحقیق و جستجو کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور اردو کی بعض قدیم کتب نظم ونثر شایع کی ہیں، جن سے ابتدائے زبان کی کیفیت معلوم ہوتی ہے۔ نیز انجمن نے ایک سلسلہ لغات کا بھی ترتیب دینا شروع کیا ہے۔ فی الحال انگریزی اردو کی ایک مبسوط اور جامع لغات زیر طبع ہے اور جلد شایع ہو جائےگی۔ ہندی اردو لغات بھی زیر ترتیب ہے۔ پیشہ وروں کی اصطلاحات بھی مکمل ہو چکی ہیں اور اب ان کی نظرثانی کی جا رہی ہے۔ اس میں تقریباً بیس ہزار اصطلاحات مختلف پیشوں کی بڑی تلاش اور محنت سے جمع کی گئی ہیں۔ قدیم اردو کی لغات بھی زیر ترتیب ہے۔ قدیم الفاظ موجودہ لغت کی کتابوں میں نہیں ملتے۔ اس سے ادبی تحقیق میں بہت مدد ملےگی۔تقریباً ایک سال سے جائزۂ زبان اردو(اردوسروے) کاکام بھی جاری ہے۔ اکثر صوبوں اور علاقوں سے رپوٹیں وصول ہو چکی ہیں اور باقی مقامات پر کام ہو رہا ہے۔ اس وقت ایک اور تجویز میرے زیر غور ہے۔ یہ ارادہ ہے کہ دنیا کی اعلیٰ زبانوں میں جتنی مہاتصانیف (کلاسکس) ہیں، ان سب کا ترجمہ اردو میں کر دیا جائے۔ میں نے اس کی ایک فہرست تیار کی ہے جو خاص خاص اصحاب کی خدمت میں رائے کے لیے بھیجی جا رہی ہے۔ اگر یہ تجویز عمل میں آ گئی تو ہماری زبان میں ایک ایسا عجیب و غریب سامان مہیا ہو جائےگا جو دنیا کا بہترین کارنامہ اور بنی نوع انسان کا افضل ترین ارث سمجھا جاتا ہے اور اس سے ہماری زبان کو جو بیش بہافائدہ پہنچے گاوہ محتاج بیان نہیں۔ اس کے علاوہ ہم دنیا کی موجودہ بڑی بڑی تحریکوں پر بعض کتابیں تالیف کرا رہے ہیں، جو معلومات کی توسیع میں بڑا کام دیں گی۔ اس بیان سے میرا مطلب انجمن ترقیٔ اردو کا اشہتار دینا نہیں بلکہ مثال کے طور پر وہ طریقہ ٔ عمل بتاناہے جس پر انجمن اس وقت کاربند ہے یا جو اس کے پیش نظر ہے۔ادبی اداروں کے اتحاد عمل سے ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اس وقت جو ہمارے ادب میں بے راہ روی پائی جاتی ہے، اس کا بھی انسداد ممکن ہے۔ جب ہم متفقہ طور پر اس کے خلاف آواز بلند کریں گے تو ہماری آواز بے اثر نہیں رہےگی۔ آج کل ہمارے ادب میں خیالی یا اس وقت کے محاورے میں رومانی رنگ غالب ہوتا جاتا ہے۔ کچھ مدت ادب جدید کا ایک ایسا دور رہا جس کا تعلق زیادہ تر علی گڑھ تحریک سے تھا، اس وقت کے اہل ادب مثلاً سرسید احمد خاں یا مولانا حالی زندگی کے واقعات اور اس کی مشکلات سے بحث کرتے تھے۔ قومی تنزل کے اسباب، آئندہ ترقی کی تدابیر، تعلیم کی ترغیب، دشواریوں سے مردانہ وار مقابلہ، رسم و رواج اور توہمات کی تنقید، ادب کی اصلاح وغیرہ وغیرہ ایسے مضامین تھے جن پر بحث کرنے سے ان کا قلم نہیں تھکا۔مولوی نذیر احمد جیسے عالم نے جتنے ناول لکھے ہیں وہ سب اس وقت کی زندگی اور معاشرت کا آئینہ ہیں۔ لیکن اس زمانے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’شرر‘ اور ’آزاد‘ کی روح نئے جون میں نمودار ہوئی ہے۔ ہمارے ادیب اور شاعر عالم خیال میں پرواز کرتے پھرتے ہیں اور روز بروز حقیقت اور زندگی سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ یوں سمجھیے گو یا وہ زندگی کی حقیقتوں اور دشواریوں اور ان پر غور و فکر کرنے سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن کیا وہ ان حیلوں سے بچ سکتے ہیں؟ ادب کی بنا زندگی پر قائم ہے اور اگر یہ نہیں تو وہ ایک لچر سی کہانی ہے۔یہ جو کہا گیا ہے کہ ادب زندگی کا ایک آئینہ ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ مثلاً عرب جاہلیت کے شعرا کو لیجیے۔ شاعری ان کی رگ وپے میں پیری ہوئی تھی۔ معمولی سا معمولی اور جزوی سا جزوی معاملہ بھی ان کی نظر میں ایک بڑا واقعہ تھا اور تحریک شعر کے لیے کافی تھا۔ ان کی لڑائیاں، ان کی فتح وشکست، عشق و محبت (خیالی نہیں) خوف و خطر، انتقام، مہمان نوازی وغیرہ، یہاں تک کہ ایک بچھیرے کی ولادت تک کا نقشہ ان کی نظموں میں زندہ موجود ہے۔ ان کے کلام میں تازگی، آزادی، مردانہ پن اور ذوق زندگی پایا جاتا ہے۔ اگر ہم ان کے کلام کا مطالعہ کریں تو اس زمانے کی معاشرت، رسم ورواج اور خیالات و توہمات کی تاریخ مرتب کر سکتے ہیں۔گزشتہ تیس سال میں ہماری زندگی میں بہت کچھ تغیر واقع ہواہے۔ اگر دو ایک شاعروں سے قطع نظر کیا جائے تو کیا ہمارے شعرا کے کلام میں کہیں بھی اس انقلاب کا پتا ہے؟ ہمارے شاعر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ تلامیذالرحمان ہیں۔ مشاہدہ، مطالعہ اور حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں، ان کے دلوں پر آسمان سے ہر وقت الہام کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ لیکن اگر انہیں اپنا اور دوسروں کا وقت ضایع کرنا منظور نہیں تو انہیں اپنی ہوائی پرواز سے اس ناپاک زمین پر اترنا پڑےگا۔ ورنہ ان کی شاعری کو کوئی آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھےگا۔ہمارے رسالے اور اخبار بھی بہت کچھ اسی رنگ میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔ وہ دنیا کی ان عظیم الشان تحریکوں پر جنہوں نے دنیا میں ہیجان پیدا کر رکھا ہے، بہت کم سنجیدگی سے بحث کرتے ہیں۔ وہ زیادہ تر ادب لطیف، معمولی فسانوں اور نظم نمانثر کے شائق معلوم ہوتے ہیں۔ ایک بڑا عیب یہ ہے کہ جب کبھی وہ ملکی معاملات پر بحث کرتے ہیں، اس میں فرقہ بندی کی بساند آنے لگتی ہے یا خواہ مخواہ ایسے معاملات کو جن کو مذہب سے کوئی تعلق نہیں، مذہبی رنگ میں پیش کرتے ہیں۔ یہ عام طور پر ہندی اردو اخباروں اور رسالوں کی حالت ہے۔ اس سے تنگ نظری اور تعصب پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ ادب کے حق میں زہر ہے۔ اگر ہمارے ادبی ادارے اور کسی غرض سے نہ سہی، صرف ادب کی خاطر یہ تصفیہ کر لیں اور متفقہ طور پر ان باتوں سے اپنی بیزاری ظاہر کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کا اثر نہ ہو لیکن صرف تجویزیں پیش کردینا اور قرارد ادیں منظور کر لینا کافی نہ ہوگا۔ ان اداروں کو خود بھی ان پر عمل کر کے دکھانا ہوگا۔اس قسم کے اور بہت سے قصے قضیے ہیں۔ مثلاً ہندی اردو یارسم الخط کی بحث یا اور چھوٹے موٹے مسائل جن کا تعلق زبان اور ادب سے ہے۔ ان جھگڑوں کے چکانے کایہی طریقہ ہو سکتا ہے، جو میں نے عرض کیا۔ اپنی اپنی جگہ پر ہر ایک اپنی رائے کو صائب اور قوی سمجھتا ہے لیکن باہم مل بیٹھنے اور مشاورت کی بڑی کرامت یہ ہے کہ جن رایوں کو ہم اٹل سمجھے بیٹھے تھے، وہ باہم گفتگو کرنے کے بعد جھرجھری معلوم ہونے لگتی ہیں۔ خلوص نیت شرط ہے۔رسم الخط کامسئلہ آج کل بہت زیر بحث ہے اور خاصا بھڑوں کا چھتا بن گیا ہے۔ اس میں مشکل یہ آ پڑی ہے کہ جیسا ہمارے ہاں عام دستورہے، رسم الخط کو قومی تہذیب اور مذہب کا جز سمجھ لیا ہے۔ اس لیے موجودہ حالات میں یہ توقع نہیں ہو سکتی کہ لوگ ٹھنڈے دل سے اس پر غور کریں گے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم اس پر بحث کرنا ترک کر دیں۔ غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس مسئلے کو جذبات اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ اقتصادی مسئلہ ہے۔ جس رسم الخط میں صرف کم ہوگا، وقت کم لگےگا، جگہ کم گھرے گی اور جس کے پڑھنے میں آسانی ہوگی اور جو دیکھنے میں بھی خوش نما ہوگا، وہی مقبول ہوکے رہےگا۔ عام طور پر لوگوں نے اسے ہندی اردو سے متعلق کر کے جھگڑے کے لیے ایک نیا شاخسانہ کھڑا کر لیا ہے۔ اس کا حل آسان ہو لیکن اس کا رواج آسان نہیں۔ اس کے لیے ایک مدت درکار ہے۔ فی الحال یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اردو رسم الخط میں جو نقائص ہیں ان کی اصلاح کشادہ دلی سے کی جائے۔ ہندی سمیلن نے اس کی طرف قدم اٹھایا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ایسی کمیٹی قرار دی جائے جو اردو رسم الخط پر غور کر کے اس میں مناسب اصلاح عمل میں لائے تو ایک مفید کام ہوگا۔ہندستانی اکیڈمی کا وجود اس صوبے میں بہت غنیمت ہے۔ وہ اس قسم کے مسائل حل کرنے اور اسی طرح کی اصلاحیں عمل میں لانے کے لیے قایم کی گئی تھی۔ میں اس وقت اس کے کاموں پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتا۔ لیکن اکیڈمی کے کارفرماؤں کی خدمت میں اس قدر عرض کرنے کی جرأت کرتا ہوں کہ جب اکیڈمی نے ہندستانی کا لقب اختیار کیا ہے اور ہندستانی کے رواج کا بیڑا اٹھایا ہے تو کیوں اب تک ایسی کتابیں تالیف نہیں کرائی گئیں اور کوئی رسالہ ایسا شایع نہیں کیا گیا جو ہندستانی زبان میں ہو اور بجنسہ بغیر کسی تغیر و تبدل کے دونوں رسم الخط میں لکھا جا سکے۔ اگر یہ ممکن ہو اور اکیڈمی اس کی کوشش کرے تو زبان کی بڑی خدمت ہوگی۔ اور یہ جو اعتراض ہے کہ ہندستانی کی دوڑ صرف معمولی بول چال اور کاروبار تک ہے اور ادب میں اس کو کوئی حیثیت حاصل نہیں، بہت کچھ رفع ہو جائےگا۔اور اس سے بھی زیادہ مفید کام جو اکیڈمی کر سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ اسی زبان میں ریڈریں تیار کرائے جو دونوں رسم الخط میں لکھی جائیں۔ اس سے وہ دو رنگی جو اس وقت اس صوبے کے مدارس میں پائی جاتی ہے، خودبخود اٹھ جائےگی اور لڑکے ابتداسے ایسی زبان لکھنے اور بولنے کے عادی ہو جائیں گے جو اس علاقے کا ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ ہندستانی کے رواج کا سب سے بڑا ذریعہ یہ مدارس ہو سکتے ہیں۔حضرات! وقت گزرتا جاتا ہے اور بہت سے ایسے مسائل ادھورے پڑے ہیں۔ اگر ہم فوراً اور بہت جلد ان کو طے نہیں کر سکتے تو کم سے کم ہمیں ان کے جلد طے کرنے کا سامان فوراً مہیا کرنا چاہیے۔ جس وقت کوئی ایسی تجویز پیش ہو اور انشاء اللہ اس کا موقع بہت جلد آنے والا ہے تو مجھے امید ہے کہ وہ اصحاب جو اپنی زبان کے سچے بہی خواہ ہیں اپنے تجربے اور مشورے سے مدد دینے میں دریغ نہ فرمائیں گے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.