خط کے آتے ہی وہ مکھڑے کی صفائی کیا ہوئی

خط کے آتے ہی وہ مکھڑے کی صفائی کیا ہوئی
by قائم چاندپوری
312471خط کے آتے ہی وہ مکھڑے کی صفائی کیا ہوئیقائم چاندپوری

خط کے آتے ہی وہ مکھڑے کی صفائی کیا ہوئی
وہ منش کیدھر گئے وہ میرزائی کیا ہوئی

ہم نہ کہتے تھے کہ پیارے جان اہل دل کی قدر
اب وہ دل کیدھر گئے وہ دل ربائی کیا ہوئی

زور کرتا ہے اک عالم نا توانوں پر ترے
اے سپہر دوں تری زور آزمائی کیا ہوئی

شیخ جی آیا نہ مسجد میں وہ کافر ورنہ ہم
پوچھتے تم سے کہ اب وہ پارسائی کیا ہوئی

روئیے اس غم کدے میں آہ کس کس کو کہ یاں
دیکھتے نظروں کے اپنی اک خدائی کیا ہوئی

اے وفا بیگانہ تھا تو بھی تو ہم سے آشنا
وہ وفا کیدھر گئی وہ آشنائی کیا ہوئی

گو کسی حالت میں ہو قائمؔ میں سمجھوں ہوں تجھے
ہے تو تو وہ ہی پہ تیری کبریائی کیا ہوئی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.