خم نہ بن کر خود غرض ہو جائیے
خم نہ بن کر خود غرض ہو جائیے
مثل ساغر اور کے کام آئیے
ابر رحمت سنتے ہیں نام آپ کا
خاکساروں پر کرم فرمائیے
آپ آہو چشم ہیں آہو نہیں
ہم سے وحشت کی نہ لیجے آئیے
صبر رخصت ہو تو جانے دیجئے
بے قراری آئے تو ٹھہرائیے
جوہر تیغ نگہ کھل جائے گا
منہ نہ میرے زخم کا کھلوایئے
دل میں ہے دکھلائیے تاثیر عشق
ٹھنڈی سانسوں سے انہیں گرمائیے
سرد آہیں بھرتے ہیں جب ہم نسیمؔ
کہتے ہیں وہ ٹھنڈے ٹھنڈے جائیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |