خواب (ماسٹر رام چندر)

319292خوابماسٹر رام چندر

کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جس کو خواب نہیں آیا ہوگا لیکن سب آدمی حیران ہیں کہ خواب کیا ہے؟ اور کس طور سے پیدا ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہےکہ خواب کا باعث بالتحقیق دریافت کرنا ہر صورت میں ایک امر محال معلوم ہوتا ہے پھر بھی عاقلوں اور ذہینوں نے کچھ کچھ حال اس عجیب شے کا لکھا ہے اور چونکہ یہ مضمون بہت دلچسپ ہے اس واسطے ہم بھی اس جائے حال خواب کا لکھتے ہیں اور جہاں تک حکماء فرنگ نے اس امر میں تحقیقات کی ہیں وہاں تک اس رسالےمیں درج کریں گے۔ واضح ہو کہ خواب دو باعثوں سے اکثر ہوتے ہیں۔ (۱) اثناء نیند میں ہم یہ یقین کر لیتے ہیں کہ جو جو خیالات ہمارے ذہن میں موجود ہیں، وہ حقیقت میں درست اور صحیح ہیں اور وہ باتیں جن کا ہمیں خیال آتا ہے وہ حقیقت میں موجود ہیں اور اس غلطی کو کہ یہ باتیں خواب کی درست نہیں ہیں بلکہ غلط، نیند میں درست نہیں کرسکتے ہیں۔ کسی واسطے کہ سوتے ہوئے ہمیں یہ اختیار نہیں ہوتا کہ ہم حقیقی باتوں سے انھیں مطابق کر کے ان کی غلطی دریافت کرلیں۔ خلاف اس کے ہم جاگتے ہوئے ان کی غلطی بآسانی دریافت کر لیتے ہیں۔ مثلاً جس وقت ہم جاگتے ہوتے ہیں اور اپنے گھر میں بیچ مقام دہلی کے بیٹھے ہوئے ہیں، اس وقت ہم یہ خیال کریں کہ ہم مقام لندن میں موجود ہیں اور وہاں کے ملک کی سواری دیکھ رہے ہیں۔ پس اس صورت میں ہمارے دل میں خیال بندھ جائے گا اور ایسا معلوم ہو جائے گا کہ ہم گویا لندن میں موجود ہیں، لیکن اس وقت ہمیں یہ اختیار ہے کہ اس خیال کو دور کردیں اور ادھر ادھر دیکھ کر یہ جان لیں کہ لندن کہاں ہے اور ہم تو دہلی میں اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ خلاف اس کے نیند میں ہمیں یہ اختیار نہیں ہوتا۔ جب ہم سوتے ہوتے ہیں، اس وقت اس اس غلطی کو درست نہیں کر سکتے ہیں۔ مثلاً ہمیں نیند میں یہ خیال آتا ہے کہ ہم شہر لندن میں سیر کر رہے ہیں اور چونکہ اس خیال کی غلطی کو اس صورت میں درست نہیں کر سکتے ہیں جبکہ ہم جاگتے ہوئے خیال کر سکتے ہیں تو ہمیں اس وقت یقین کلی ہو جاتا ہے کہ ہم جو دیکھ رہے ہیں، وہ حقیقت میں موجود ہے اور اس خیال کے یقین کو خواب کہتے ہیں۔ (۲) نیند میں جو خیال پیدا ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس طور سے کہ جہاں ایک خیال آیا اسی وقت اور سب خیال بھی جو اس سے کچھ بھی علاقہ رکھتے ہیں، آدمی کے دل میں آجاتے ہیں اور ان خیالوں کو ہم روک نہیں سکتے۔ جیسا کہ ہمیں جاگتے کے وقت میں اختیار ہوتا ہے۔ ان دونوں باتوں پر غور کرنا چاہئے اور بعد ازاں معلوم ہوگا کہ اکثر خوابوں کے باعث دو باتیں ہوتی ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خیالات ایسی ایسی باتوں کے جو چند روز پہلے واقع ہوئے تھے ایک دسرے سے پیوستہ ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بات خواب میں واقع ہوئی وہ ایک ایسی بات سے پیوستہ ہو جاتی ہے جو بہت مدت پہلے واقع ہوئی تھی اور اس صورت میں جب ایک کا ان باتوں میں سے خیال آتا ہے اس وقت دوسرے کا بھی خیال آ جاتا ہے اور یہ دونوں باتوں کا خیال ایک ایسی بات سے آ جاتا ہے جو ان دونوں سے مشترک ہے۔ مثلاً جس وقت ہماری طبیعت نادرست اور رنجیدہ ہو اور اس وقت ہمیں اپنے بھائی کا جو فاصلہ بعید پر سفر کرتا پھرتا ہے، خیال آئے اور یہ بھی ہو کہ کہ اسے کچھ تکلیف ہے اور اسی وقت کچھ اور دوسری خبر سنی، ان سب باتوں سے مل کر ایک خواب پیدا ہو جائے گا۔ ان سب باتوں میں ایک ایسی شیٔ ہے کہ وہ سب میں پائی جاتی ہے یعنی وہ کچھ تکلیف ہے۔ کیونکہ ان سب باتوں سے تکلیف پیدا ہوئی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کچھ تکلیف جسم میں ہوتی ہے مثلاً بدہضمی یا کوئی اور بیماری معدے کی اور جب اس حالت تکلیف میں نیند آجاتی ہے، اس وقت برے برے خواب دیکھنے میں آتے ہیں کیونکہ ساتھ تکلیف معدہ کے اور خیال بھی تکلیف کے آجاتے ہیں۔ اگر یہ تکلیف معدے کی نہ ہوتی تو خواب میں بری بری باتیں نہ دیکھتے۔ اگرچہ وہ اشخاص اور مکان جو خواب میں مشاہدہ کیا جاتا ہے ویسا ہی ہوتا ہے لیکن کوئی شیٔ خوفناک نظر آتی ہے۔ یہ سب ناظرین کو معلوم ہوگا کہ اکثر ڈراؤنے خواب عورتوں کو آیا کرتے ہیں جو ضعیف ہوتی ہیں اور جن کو خلل معدہ کا اکثر رہتا ہے کیونکہ بہ سبب تکلیف معدہ کے انہیں خیالات تکلیف کے وقت نیند کے دل میں آ جاتے ہیں اور ان کو خواب برے برے دکھائی دیتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی ایک واقف کار سے ملتے ہیں جس سے ہماری سالہا سال سے ملاقات نہیں ہوئی تھی اور اس سے ہم حال اپنے اور قدیم دوستوں اور واقف کاروں کا پوچھتے ہیں اور باتوں کا آپس میں ذکر کرتے ہیں۔ بعد اس کے سوتے ہوئے ایک خواب پیدا ہوتا ہے کہ اس میں ان سب پرانے دوستوں سے جن کا ذکر دن میں آیا تھا، ملاقات ہوئی ہے اور مختلف ذکر ان سے ہوتے ہیں لیکن وہ خاص شخص جس سے ان پرانے دوستوں کا حال معلوم ہوا تھا، خواب میں نہیں موجود ہوتا ہے اور اس کا باعث ظاہر ہے کہ اس سلسلہ خیالات میں جس سے خواب پیدا ہوا تھا، اس شخص کو دخل نہیں۔ ایک ڈاکٹر انگلیشہ نے بہت سے خوابوں کا حال، جو اس کو اور اس کے واقف کاروں کو واقع ہوئے تھے، لکھتاہے اور چونکہ وہ آدمی بہت محقق ہے تو اکثر اس کی بات کا یقین ہوتا ہے۔ وہ یہ لکھتا ہے کہ ایک دن میں گرم پانی میں اپنے پاؤں ڈال کر لیٹ رہا اور سو رہا اور بعد ازاں یہ خواب دیکھا کہ میں دہانہ پہاڑ آتشی پر پھر رہا ہوں اور مارے گرمی کے میرے پاؤں جلے جاتے ہیں۔ اب باعث اس خواب کایہ معلوم ہوتا ہے کہ چند روز پہلے وقوع اس خواب کے اس نے مفصل حال آتشی پہاڑ پڑھا، یہاں تک کہ اس عجیب شیٔ کا خیال اس کے دل میں جم گیا تھا۔ چونکہ گرمی پانی کی نے اس کے پاؤں کو ذرا گرمی پہنچائی، اس نے خیالات پہاڑ آتشی کے اس کے دل میں اٹھائے اور گرمی پانی کی اس نے گرمی دہانہ پہاڑ آتشی کی تصور کر لی۔ اب اگر یہ شخص جاگتا ہوتا تو اپنے گھر اور اسباب کو ادھر ادھر دیکھ کر یہ جان لیتا کہ پہاڑ آتشی کہاں ہے، یہ تو میرا گھر ہے اور گرم پانی میں میرے پاؤں رکھے ہوئے ہیں، لیکن سوتے ہوئے یہ خیال نہیں رہا اور جو جو خیالات پڑھنے حال آتشی پہاڑ کے پیدا ہوتے تھے اس کو صحیح اور تحقیق معلوم ہوئے اور اس کو شک نہ ہوا کہ یہ سب خیالات ہیں اور نفس الامر میں ان کا وجود نہیں ہے۔ ایک دفعہ اسی ڈاکٹر نے یہ خواب دیکھا کہ میں قریب خلیج ہڈسن کے مقیم ہوں اور وہاں سردی اور برف کے باعث مجھے نہایت تکلیف ہے۔ باعث اس خواب کا یہ ہوا کہ چند روز پہلے وقوع اس خواب کے اس ڈاکٹر نے حال خلیج ہڈسن کے آس پاس کے ملک کا پڑھا تھا، اور یہ بھی وہاں لکھا دیکھا تھا کہ وہاں نہایت سردی اور برف پڑتی ہے اور باعث اس کا یہ بھی خیالات نیند میں کیونکر دل میں آگئے یہ ہوا کہ نیند کی بے خبری میں ڈاکٹر مذکور نے اپنی رضائی اپنے اوپر سے الگ پھینک دی تھی اور اس سبب انھیں سردی معلوم ہوئی اور تکلیف اس سردی نے خیالات سردی خلیج ہڈسن کے دل میں اٹھائے۔ اس ڈاکٹر نے ایک عجیب حال خواب ایک انگریز اور اس کی بیوی کا لکھا ہے کہ ان دونوں کو ایک ہی وقت ایک ہی خواب واقع ہوا۔ واضح ہو کہ جس اوقات کا یہ ذکر ہے ان اوقات میں ملک فرانس میں ایک بڑی گڑبڑ ہوئی تھی اور اہل فرانس نے اسکاٹ لینڈ پر، جس کا دار الخلافہ اے ڈن برا ہے، مہم کرنے کا ارادہ کیا تھا اور اس باعث شہر ایڈن برا میں تہلکہ عظیم واقع ہوا، اور ہر وقت سپاہ واسطے جنگ کے موجود رہتی تھی۔ غرض یہ کہ ہر آدمی اس شہر میں بیچ اس وقت کے ایک سپاہی بن گیا تھا اور سب یہ توقع کر رہے تھے کہ اب فرانس والے حملہ آور ہوتے ہیں۔ ان دنوں میں انگریز مذکور نے یہ خواب دیکھا کہ سپاہ فرانس ایڈن برا میں داخل ہوئی اور جنگ وجدل طرفین سے شروع ہوئی۔ جب یہ حال اس انگریز کا تھا اس وقت اس کی بیوی نے بھی یہی خواب دیکھا اور گھبرا کے جاگ گئی۔ اب ظاہر ہے کہ باعث اس خواب کا یہ ہوا کہ اول تو ان دونوں بیوی اور خاوند کے خیال نیند میں جنگ اور جدل کے جمع ہوئے تھے اور باعث اس کا یہ کہ خیال رات کو نیند میں ان دونوں کے دل میں کیوں آگئے یہ تحقیق ہوا کہ جب یہ دونوں سوئے تھے اس وقت ایک بڑا دست پناہ جو بری طرح سے ایک جائے اونچا رکھا ہوا تھا، زمین پر گر پڑا اور اس کی آواز مثل اوزار تلواروں اور ہتھیاروں جنگ کی معلوم ہوئی اور فوراً سب خیالات جنگ و جدل کے جو ان کے دل میں جمع تھے، ان کے خیال میں آگئے اور خواب پیدا ہوگیا۔ ڈاکٹر فرائیڈ جو ایک بڑا فاضل تھا، ایک خواب کا حال اس نے خود دیکھا تھا اس طور پر لکھتا ہے۔ میرے سر پر ایک پھوڑا ہوگیا تھا اور اس کے اوپر میں نے ایک پھایا لگا رکھا تھا۔ رات کے وقت جب میں سوتا تھا کسی باعث سے وہ پھایا اپنی جائے سے ہل گیا اور اس باعث سے مجھے تکلیف ہوتی اور مجھے یہ خواب دکھائی دیا کہ جنگل کے وحشی آدمی مجھے گرفتار کر کے میری پوست سر سے اتارتے ہیں۔ باعث اس خواب کا ظاہر ہے کہ اس ڈاکٹر مذکور کو حال وحشیوں کی زیادتیوں اور عادتوں کا خوب معلوم تھا اور اس کا باعث کہ یہ سب خیالات نسبت وحشیوں کے خاص اسی رات اس کے دل میں کیوں آگئے یہ ہے کہ اس رات کو پھایا اس کے سر کے پھوڑے کا ذرا اکھڑ گیا تھا اور اکھڑنا ایک پھائے کا بہت مشابہ چمڑی اتارنے کے ہے۔ اس جائے واضح ہوکہ بعض آدمیوں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ جس وقت وہ سوتے ہوں اس وقت کوئی آدمی یا ان کا دوست ان کے کانوں میں کچھ باتیں آہستہ سے کہہ دے تو ان سوتے ہوئے آدمیوں کو خواب ان ہی باتوں کا آجائے، جو جاگتے ہوئے آدمیوں نے ان کے کانوں میں کہی تھیں۔ ڈاکٹر مذکور نے اپنی کتاب میں ایک عجیب حال اس قسم کے خواب دیکھنے والے آدمی کا لکھا ہے۔ واضح ہو کہ سنہ ۱۷۵۸ء میں ایک مہم مقام لواس برگ پر ہوئی تھی اور فوج مقررہ اس مہم میں ایک افسر عادت ایسے خواب دیکھنے کی رکھتا تھا کہ اس کے دوست جو اس سے بے تکلف تھے، اور اسے اکثر حیران کرتے تھے یعنی جب وہ سوتا تو اس کے کان پر منہ لگا کر چاہے جو کچھ کہہ دیتے اور ویسا ہی خواب اس افسر کو آجاتا اور وہ انھیں خواب کے موافق عمل کرنے لگتا۔ ایک بار اس کے دوستوں نے کان میں ایسی ایسی باتیں کہیں کہ اس کو ایک اور آدمی سے خواب میں خفا کروا دیا، یہاں تک کہ دونوں میں جنگ کی تیاری کروا دی اورطبنچہ اس کے ہاتھ میں دیا اور اسی خواب کا اس قدر غلبہ ہوا کہ اس طبنچہ کو جس میں گولی نہیں تھی سر کیا اور اس کی آواز سے جاگ اٹھا اور اس کی بڑی ہنسی ہوئی۔ ایک اور دفعہ سوتے ہوئے اس کے دوستوں نے اس کے کان میں یہ کہا کہ تو دریا میں گر پڑا اور یہ بھی اسے صلاح دی کہ اب تیرنا لازم ہے نہیں تو تو ڈوب جائے گا، چنانچہ اسے بھی خواب نظر آیا کہ میں پانی میں گر پڑا اور اس نے ہاتھ پاؤں مارنے بطور تیرنے کے شروع کئے اور بعد اس کے دوستوں نے یہ کہا کہ ایک مگر مچھ تجھے پکڑنے کو آیا ہے۔ پس تجھے لازم ہے کہ تو بہت تیر کے خشکی پر آجا، چنانچہ اس نے بہت کوشش کی اور اس کوشش کے باعث سے وہ پلنگ پر سے گر پڑا اور اس کی بڑی ہنسی ہوئی۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.