خواہشیں دنیا کی بار دوش و گردن ہو گئیں
خواہشیں دنیا کی بار دوش و گردن ہو گئیں
رفتہ رفتہ منزل عقبیٰ کی رہزن ہو گئیں
یہ ہوا کیسی چلی اس تنگنائے دہر میں
شہر جنگل ہو گئے آبادیاں بن ہو گئیں
چل سوئے گور غریباں اے حریص مال و زر
دیکھ کتنی آرزوئیں نذر مدفن ہو گئیں
کیسی رنگا رنگ شکلیں ہوں گی اے جوش بہار
مٹ کے جو گلگونۂ رخسار گلشن ہو گئیں
کھل نہیں سکتی کبھی کیفیت بغض و حسد
میری آہیں پردۂ ناموس دشمن ہو گئیں
میرے نغموں نے جو پائی قلب گلشن میں جگہ
شاخ گل پر بلبلیں بار نشیمن ہو گئیں
جب مرے نالے ہوئے قد صنوبر سے بلند
بلبلیں ساکت سر دیوار گلشن ہو گئیں
جامۂ ہستی ہوا صد چاک جب مثل سحر
زینتیں دنیا کی گردا گرد دامن ہو گئیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |