خواہ سچ جان مری بات کو تو خواہ کہ جھوٹ
خواہ سچ جان مری بات کو تو خواہ کہ جھوٹ
سچ کہوں سچ کو اگر تیرے تو واللہ کہ جھوٹ
سچ اگر بولے تو ہم سے تو بھلا کیا ہو خوشی
جی میں جی آتا ہے سن کر ترا ہر گاہ کہ جھوٹ
راست گر پوچھے تو ہے راست کہ تجھ میں نہیں مہر
اپنی ہٹ دھرمی سے کہتا ہے تو اے ماہ کہ جھوٹ
جھوٹ موٹ ان سے میں کچھ مصلحتاً بولوں گا
سچ ہے تو بول نہ اٹھیو دل آگاہ کہ جھوٹ
میں جو پوچھا کہ تجھے غیروں سے ہے راہ تو وہ
پھیر کر منہ کو لگا کہنے باکراہ کہ جھوٹ
کوئی اتنا بھی برا کرتا ہے میری ہی طرح
کیوں بھلا سچ ہے نہ یہ اے بت دل خواہ کہ جھوٹ
دل تو واقف ہے بہت واں سے ٹک اک سچ کہنا
لاوبالی ہے مرے یار کی درگاہ کہ جھوٹ
مجھ سے جب ملتا ہے تب چھیڑ کے پوچھے ہے یہی
یہ حسنؔ سچ ہی تو رکھتا ہے مری چاہ کہ جھوٹ
کیا جواب اس کا مرے پاس بجز خاموشی
یا مگر یہ کہ یہی ہر گہ کہوں آہ کہ جھوٹ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |