خوبی کا تیری بسکہ اک عالم گواہ ہے

خوبی کا تیری بسکہ اک عالم گواہ ہے
by مرزا علی لطف

خوبی کا تیری بسکہ اک عالم گواہ ہے
اپنی بغیر دیکھے ہی حالت تباہ ہے

عالم سنا جو ناز کا ہے اس سے الاماں
انداز گفتگو سے خدا کی پناہ ہے

تیوری کے ڈھب ہیں اور نگہ کے ہزار ڈول
چتون کے لاکھ رنگ غرض واہ واہ ہے

ناخن یہ دل ہلال ہے ابرو کے رشک سے
مکھڑے کا داغ رکھتا کلیجے پہ ماہ ہے

خوں ریز تیری چشم کو بتلاتے ہیں ولے
چتون میں ساتھ کہتے ہیں پھر عذر خواہ ہے

خوبی کا تیرے بالوں کی مذکور ہے جہاں
سنبل کا نام اس جگہ اک رو سیاہ ہے

دیتا ہے تیری قامت دلجو کا جو پتا
بے ساختہ وہ کھینچتا اک دل سے آہ ہے

گو لطفؔ خفتہ بخت کے آؤ نہ خواب میں
لیکن ترے خیال کو نت دل میں راہ ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse