خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں

خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں  (1935) 
by محمد اقبال

خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تُو آبجُو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں

طلسمِ گُنبدِ گردُوں کو توڑ سکتے ہیں
زُجاج کی یہ عمارت ہے، سنگِ خارہ نہیں

خودی میں ڈُوبتے ہیں پھر اُبھر بھی آتے ہیں
مگر یہ حوصلۂ مردِ ہیچ کارہ نہیں

ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاکِ زندہ ہے تُو، تابعِ ستارہ نہیں

یہیں بہشت بھی ہے، حُور و جبرئیل بھی ہے
تری نگہ میں ابھی شوخیِ نظارہ نہیں

مرے جُنوں نے زمانے کو خوب پہچانا
وہ پیرہن مجھے بخشا کہ پارہ پارہ نہیں

غضب ہے، عینِ کرم میں بخیل ہے فطرت
کہ لعلِ ناب میں آتش تو ہے، شرارہ نہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse