خود مزے دار طبیعت ہے تو ساماں کیسا

خود مزے دار طبیعت ہے تو ساماں کیسا
by آغا اکبرآبادی

خود مزے دار طبیعت ہے تو ساماں کیسا
زخم دل آپ ہیں شورش پہ نمکداں کیسا

ہاتھ وحشت میں نہ پونچھے تو گریباں کیسا
خار صحرا سے نہ الجھے تو وہ داماں کیسا

کوچۂ یار کو دعویٰ ہے کہ جنت میں ہوں
خلد کہتے ہیں کسے روضۂ رضواں کیسا

اسی معبود کا ہے دیر و حرم میں جلوہ
بحث کس بات کی ہے گبر و مسلماں کیسا

وعدۂ بادۂ اطہر کا بھروسہ کب تک
چل کے بھٹی پہ پئیں جرعۂ عرفاں کیسا

ہم ہوئے قیسؔ ہوئے وامقؔ و فرہادؔ ہوئے
زلف پر خم نے کیا سب کو پریشاں کیسا

دور کے ڈھول ہیں یوسف کی کہانی صاحب
کس کو معلوم ہے ہوگا مہ کنعاں کیسا

تیرے قربان میں اتنا تو بتا دے قاتل
میری گردن پہ چلا خنجر براں کیسا

دل کے آئینہ میں تصویر صنم رکھتا ہے
نہیں معلوم کہ آغاؔ ہے مسلماں کیسا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse