خورشید رو کی صحبت جو اب نہیں تو پھر کب

خورشید رو کی صحبت جو اب نہیں تو پھر کب
by عشق اورنگ آبادی

خورشید رو کی صحبت جو اب نہیں تو پھر کب
شبنم کی طرح قربت جو اب نہیں تو پھر کب

ذرے کی طرح مجھ پر اک مہر کی نظر کر
دیکھے وہ مہر طلعت جو اب نہیں تو پھر کب

جوڑا ہے زعفرانی اس گل بدن کے بر میں
خوش ہو مری طبیعت جو اب نہیں تو پھر کب

آلودہ دامنی کو دھونے کو منتظر ہوں
بارش دے ابر رحمت جو اب نہیں تو پھر کب

اس باغ میں دو روزہ ہے عشق زندگانی
گل کی طرح بشاشت جو اب نہیں تو پھر کب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse