خورشید رو کے مہر کی جس پر نگاہ ہو

خورشید رو کے مہر کی جس پر نگاہ ہو
by عشق اورنگ آبادی

خورشید رو کے مہر کی جس پر نگاہ ہو
طالع اسی کا خلق میں رخشندہ ماہ ہو

دشمن ہیں دین و دل کے بتاں دیکھ بے خبر
اس طرح کیجو ربط کہ جس میں نباہ ہو

ہرگز نہ عیب حسن کہے کس کے منہ پہ صاف
کر آئینہ مرا دل روشن نگاہ ہو

رہتا ہے دل تو اس کے زنخداں کے چاہ بیچ
نیں ہے بعید اس کو بھی گر دل کی چاہ ہو

آساں صراط حشر سے ہو ایک پل میں پار
گر ساتھ عشق عاصیؔ کے فضل الہ ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse