خورشید کو اگرچہ نہ پہنچے ضیائے شمع
خورشید کو اگرچہ نہ پہنچے ضیائے شمع
پروانے کو پسند نہیں پر سوائے شمع
اس تیرہ روزگار میں مجھ سا جگر گداز
مشعل جلا کے ڈھونڈے اگر تو نہ پائے شمع
روزِ فراق میں ہے قیامت، جمالِ گُل
شب ہائے ہجر میں ہے مصیبت، لقائے گُل
پروانے کیا خجل ہوئے دیکھا جو صبح کو
تھا شب کو اس کی بزم میں خورشید جائے شمع
اُس رشکِ شمع و گُل کی ہے کچھ آب و تاب اور
دیکھے ہیں جلوہ ہائے گل و شعلہ ہائے شمع
دیتی ہے اور گرمئ پروانہ داغِ اشک
شب ہائے ہجر میں کوئی کیونکر جلائے شمع
کیا حاجت آفتاب کے گھر میں چراغ کی
ہے حکم شب کو بزم میں کوئی نہ لائے شمع
اُس لعلِ بے بہا سے کہاں تابِ ہمسری
روشن ہے سب پہ قیمتِ گُل اور بہائے شمع
خورشید جس کے جلوہ سے ہو شمعِ صبح دم
کیا ٹھہرے اس کے سامنے نور و ضیائے شمع
اس تیرہ شب میں جائیں گے کیونکر عدو کے گھر
میرا رقیب وہ ہے جو ان کو دکھائے شمع
آتے ہیں وہ جو گور پہ میری تو بہرِ زیب
کوئی نہ پھول لائے نہ کوئی منگائے شمع
گُل پر لگا کے آپ سے پہنچیں گے بے طلب
آئے گی اپنے پاؤں سے یاں بن بلائے شمع
ڈر ہے اُٹھا نہ دے کہیں وہ بزمِ عیش سے
کیا تاب ہے کہ شیفتہ آنسو بہائے شمع
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |