خوشامد (نظیر اکبر آبادی)

316071خوشامدنظیر اکبر آبادی

دل خوشامد سے ہر اک شخص کا کیا راضی ہے
آدمی جن پری و بھوت بلا راضی ہے
بھائی فرزند بھی خوش باپ چچا راضی ہے
شاد مسرور غنی شاہ و گدا راضی ہے
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
اپنا مطلب ہو تو مطلب کی خوشامد کیجے
اور نہ ہو کام تو اس ڈھب کی خوشامد کیجے
اولیا انبیا اور رب کی خوشامد کیجے
اپنے مقدور غرض سب کی خوشامد کیجے
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ ہے کی خوشامد سے خدا راضی ہے
چار دن جس کو کیا جھک کے خوشامد سے سلام
وہ بھی خوش ہو گیا اپنا بھی ہوا کام میں کام
بڑے عاقل بڑے دانا نے نکالا ہے یہ دام
خوب دیکھا تو خوشامد ہی کی آمد ہے تمام
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
بد بخیل اور سخی کی بھی خوشامد کیجے
اور جو شیطان ہو تو اس کی بھی خوشامد کیجے
گر ولی ہو تو ولی کی بھی خوشامد کیجے
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
پیار سے جوڑ دئیے جس کی طرف ہاتھ جو آہ
وہیں خوش ہو گیا کرتے ہی وہ ہاتھوں پہ نگاہ
غور سے ہم نے جو اس بات کو دیکھا واللہ
کچھ خوشامد ہی بڑی چیز ہے اللہ اللہ
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی
پینے اور پہننے کھانے کی خوشامد کیجے
ہیجڑے بھانڈ زنانے کی خوشامد کیجے
مست و ہشیار دوانے کی خوشامد کیجے
بھولے نادان سیانے کی خوشامد کیجے
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
عیش کرتے ہیں وہی جن کا خوشامد کا مزاج
جو نہیں کرتے وہ رہتے ہیں ہمیشہ محتاج
ہاتھ آتا ہے خوشامد سے مکاں ملک اور تاج
کیا ہی تاثیر کی اس نسخے نے پائی ہے رواج
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
گر بھلا ہو تو بھلے کی بھی خوشامد کیجے
اور برا ہو تو برے کی بھی خوشامد کیجے
پاک ناپاک سڑے کی بھی خوشامد کیجے
کتے بلی و گدھے کی بھی خوشامد کیجے
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
خوب دیکھا تو خوشامد کی بڑی کھیتی ہے
غیر کی اپنے ہی گھر بیچ یہ سکھ دیتی ہے
ماں خوشامد کے سبب چھاتی لگا لیتی ہے
نانی دادی بھی خوشامد سے دعا دیتی ہے
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
بی بی کہتی ہے میاں آ ترے صدقے جاؤں
ساس بولے کہیں مت جا ترے صدقے جاؤں
خالہ کہتی ہے کہ کچھ کھا ترے صدقے جاؤں
سالی کہتی ہے کہ بھیا ترے صدقے جاؤں
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
آ پڑا ہے جو خوشامد سے سروکار اسے
ڈھونڈتے پھرتے ہیں الفت کے خریدار اسے
آشنا ملتے ہیں اور چاہے ہیں سب یار اسے
اپنے بیگانے غرض کرتے ہیں سب پیار اسے
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
روکھی اور روغنی آبی کو خوشامد کیجے
نان بائی و کبابی کی خوشامد کیجے
ساقی و جام شرابی کی خوشامد کیجے
پارسا رند خرابی کی خوشامد کیجے
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا اراضی ہے
حق تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
جو کہ کرتے ہیں خوشامد وہ بڑے ہیں انساں
جو نہیں کرتے وہ رہتے ہیں ہمیشہ حیراں
ہاتھ آتے ہیں خوشامد سے ہزاروں ساماں
جس نے یہ بات نکالی ہے میں اس کے قرباں
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
کوڑی پیسے و ٹکے زر کی خوشامد کیجے
لعل و نیلم در و گوہر کی خوشامد کیجے
اور جو پتھر ہو تو پتھر کی خوشامد کیجے
نیک و بد جتنے ہیں یک سر کی خوشامد کیجے
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
ہم نے ہر دل کی خوشامد کی محبت دیکھی
پیار اخلاص و کرم مہر مروت دیکھی
دلبروں میں بھی خوشامد ہی کی الفت دیکھی
عاشقوں میں بھی خوشامد ہی کی چاہت دیکھی
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
پارسا پیر ہے زاہد ہے منا جاتی ہے
جواریا چور دغاباز خراباتی ہے
ماہ سے ماہی تلک چیونٹی ہے یا ہاتھی ہے
یہ خوشامد تو میاں سب کے تئیں بھاتی ہے
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
گر نہ میٹھی ہو تو کڑوی بھی خوشامد کیجے
کچھ نہ ہو پاس تو خالی بھی خوشامد کیجے
جانی دشمن ہو تو اس کی خوشامد کیجے
سچ اگر پوچھو تو جھوٹی بھی خوشامد کیجے
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
مرد و زن طفل و جواں خورد و کلاں پیر و فقیر
جتنے عالم میں ہیں محتاج و گدا شاہ وزیر
سب کے دل ہوتے ہیں پھندے میں خوشامد کے اسیر
تو بھی واللہ بڑی بات یہ کہتا ہے نظیرؔ
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.