خوشا بیداد خون حسرت بیداد ہوتا ہے

خوشا بیداد خون حسرت بیداد ہوتا ہے
by جگر مراد آبادی

خوشا بیداد خون حسرت بیداد ہوتا ہے
ستم ایجاد کرتے ہو کرم ایجاد ہوتا ہے

بظاہر کچھ نہیں کہتے مگر ارشاد ہوتا ہے
ہم اس کے ہیں جو ہم پر ہر طرح برباد ہوتا ہے

مرے ناشاد رہنے پر وہ جب ناشاد ہوتا ہے
بتاؤں کیا جو میرا عالم فریاد ہوتا ہے

یہی ہے راز آزادی جہاں تک یاد ہوتا ہے
کہ نظریں قید ہوتی ہیں تو دل آزاد ہوتا ہے

دل عاشق بھی کیا مجموعۂ اضداد ہوتا ہے
ادھر آباد ہوتا ہے ادھر برباد ہوتا ہے

وہ ہر اک واقعہ جو صورت افتاد ہوتا ہے
کبھی پہلے بھی دیکھا تھا کچھ ایسا یاد ہوتا ہے

بڑی مشکل سے پیدا ایک وہ آدم زاد ہوتا ہے
جو خود آزاد جس کا ہر نفس آزاد ہوتا ہے

نگاہیں کیا کہ پہروں دل بھی واقف ہو نہیں سکتا
زبان حسن سے ایسا بھی کچھ ارشاد ہوتا ہے

تمہیں ہو طعنہ زن مجھ پر تمہیں انصاف سے کہہ دو
کوئی اپنی خوشی سے خانماں برباد ہوتا ہے

یہ مانا ننگ پابندی سے کیا آزاد کو مطلب
مگر وہ شرم آزادی سے بھی آزاد ہوتا ہے

تصور میں ہے کچھ ایسا تری تصویر کا عالم
کہ جیسے اب لب نازک سے کچھ ارشاد ہوتا ہے

کوئی حد ہی نہیں شاید محبت کے فسانے کی
سناتا جا رہا ہے جس کو جتنا یاد ہوتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse