خوش ہوں یا دوست سے خفا ہوں میں

خوش ہوں یا دوست سے خفا ہوں میں
by صفی اورنگ آبادی

خوش ہوں یا دوست سے خفا ہوں میں
آج کل کچھ نیا نیا ہوں میں

تم پہ سو جان سے فدا ہوں میں
تم جسے چاہو اس کو چاہوں میں

ہر ادا پر تری فدا ہوں میں
آئنہ بن کے دیکھتا ہوں میں

ان کو یہ آرزو ارے توبہ
میں کہوں آرزو بھرا ہوں میں

اے عطا کوش کر عطائی نظر
اے خطا پوش بے خطا ہوں میں

ابتدا ہی غلط ہے بسم اللہ
اپنا انجام سوچتا ہوں میں

ایک نادان دوست کی خاطر
دشمنوں سے ملا ہوا ہوں میں

کسمپرسی ہے خاک ہونے تک
خاک ہوتے ہی کیمیا ہوں میں

عشق بازی ہے زندہ در گوری
موت سے پہلے مر چکا ہوں میں

کسی صورت بھی کامیاب نہیں
کس نراسے کا مدعا ہوں میں

ہجر میں موسم ہجوم گل
اور دیوانہ بن گیا ہوں میں

مجھ کو کیوں جانتے ہو مستغنی
نہیں بندو نہیں خدا ہوں میں

عشق نے کر دیا نکما سا
اب ترے کام کا بنا ہوں میں

طلب حق ہے ایسے عجز کے ساتھ
جیسا خیرات مانگتا ہوں میں

ابھی سب کچھ ابھی نہیں کچھ بھی
اے صفیؔ کیا بتاؤں کیا ہوں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse