خوں رلاتی ہے تری حسرت دیدار مجھے
خوں رلاتی ہے تری حسرت دیدار مجھے
تیری فرقت نے کیا جان سے بیزار مجھے
دیں کے قابل نہ رہا اور نہ رہا دنیا کا
تجھ سے خود کام نے ایسا کیا بیکار مجھے
روح کہتی ہے کہ سو جان سے میں صدقہ ہوں
دل کے پردے میں نظر آیا ہے جب یار مجھے
جس کی چتون کا تو گھائل ہے میں اس کا زخمی
دیکھتی کیا ہے تو اے نرگس بیمار مجھے
عمر آخر ہوئی افسوس بڑی غفلت سے
دم مردن ہی کیا موت نے ہوشیار مجھے
اپنے ہاتھوں سے پھنسا ہوں میں خود ہی آفت میں
حرص دنیا نے کیا بندۂ افکار مجھے
شیخ جی جائیے مسجد میں نہیں جاتا میں
بت کافر نے کیا صاحب زنار مجھے
اک جھلک دور سے دکھلا کے یہ چھینا کیسا
سامنے آ کے دکھا جلوۂ رخسار مجھے
رکھ کے تصویر صنم دل میں عبث کہتے ہو
شیخ ہوں میں بت کافر سے سروکار مجھے
ضبط گریہ مجھے لازم ہے کہ اغیار میں یاں
بزم میں خار نہ کر چشم گہر بار مجھے
بیٹھ کر کوچۂ شہ میں یہ جمیلہؔ نے کہا
غوث کافی ہے ترا سایۂ دیوار مجھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |