خیال اتنا ستم ایجاد رکھنا
خیال اتنا ستم ایجاد رکھنا
وفائیں کچھ ہماری یاد رکھنا
نہیں شکوہ جو رکھا ہم کو ناشاد
قیامت ہے عدو کو شاد رکھنا
بتا کیا تھا کہ مجھ کو قتل کر کے
جگر پر ہاتھ او جلاد رکھنا
عدو کے ساتھ کرنا عیش و عشرت
ہمیں او بے وفا ناشاد رکھنا
جو محفل میں ہو تیری دور ساغر
ذرا ساقی ہمیں بھی یاد رکھنا
کھنچے اس شوخ کی تصویر دل کش
ادا کوئی نئی بہزاد رکھنا
مجھے دنیا سے جس بت نے مٹایا
خدایا تو اسے آباد رکھنا
مرا دل نازوں کا پالا ہوا ہے
لئے جاتے ہو اس کو شاد رکھنا
کہیں مل جائے دل اس کا نہ اے دل
خیال اتنا دم فریاد رکھنا
غضب ہے تجھ کو او قاتل نہ آیا
گلے پر خنجر فولاد رکھنا
دلیرؔ اتنا کہے دیتے ہیں تم سے
خیال خاطر جلاد رکھنا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |