خیال نطق سے بیگانہ ہو تو کیا کہئے

خیال نطق سے بیگانہ ہو تو کیا کہئے (1938)
by محمد صادق ضیا
324505خیال نطق سے بیگانہ ہو تو کیا کہئے1938محمد صادق ضیا

خیال نطق سے بیگانہ ہو تو کیا کہئے
لب خموش ہی افسانہ ہو تو کیا کہئے

میں جانتا ہوں کہ توہین وضع ہے مستی
یہی شریعت مے خانہ ہو تو کیا کہئے

جمال دوست کو دیوانگی سے کیا مطلب
دل اپنے آپ ہی دیوانہ ہو تو کیا کہئے

ہو کوئی اور تو اس سے گلا مناسب ہے
مگر جو دوست ہے بیگانہ ہو تو کیا کہئے

بغیر ساغر مے بھی ہے کیف کا امکان
ترا خیال ہی رندانہ ہو تو کیا کہئے

میں چاہتا ہوں کہوں رنج عشق کی روداد
سلوک حسن حریفانہ ہو تو کیا کہئے

عزیز دل سے زیادہ ہے مجھ کو عصمت راز
ہر اک طرف یہی افسانہ ہو تو کیا کہئے

مذاق بزم کی اصلاح ممکنات سے ہے
فروغ شمع ہی پروانہ ہو تو کیا کہئے

شباب دعوت رنگینیٔ نظر ہے ضیاؔ
مگر نظر ہی فقیہانہ ہو تو کیا کہئے


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).