خیال گل بدن آ کر بسا ہو جس کے پہلو میں

خیال گل بدن آ کر بسا ہو جس کے پہلو میں
by عشق اورنگ آبادی
303208خیال گل بدن آ کر بسا ہو جس کے پہلو میںعشق اورنگ آبادی

خیال گل بدن آ کر بسا ہو جس کے پہلو میں
وہ بوئے غنچۂ گل کو نہیں گنتا کسی بو میں

تعجب نیں ہے اس کی آب سے بوئے گلاب آئے
پڑے گر عکس اس گل رو کے رو کا جس لب جو میں

مقابل ہو ہمارے کسب تقلیدی سے کیا طاقت
ابھی ہم محو کر دیتے ہیں آئینہ کو اک ہو میں

ہے کس کے زلف کا سودا تجھے اے عشق بتلا دے
ہمیشہ عطر عنبر کی سی بو آتی ہے تجھ خو میں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.