خیال یار سدا چشم نم کے ساتھ رہا
خیال یار سدا چشم نم کے ساتھ رہا
مرا جو چاہ میں دم تھا وہ دم کے ساتھ رہا
گیا سحر وہ پری رو جدھر جدھر یارو
میں اس کے سایہ صفت ہر قدم کے ساتھ رہا
پھرا جو بھاگتا مجھ سے وہ شوخ آہو چشم
تو میں بھی تھک نہ رہا گو وہ رم کے ساتھ رہا
اکیلا اس کو نہ چھوڑا جو گھر سے نکلا وہ
ہر اک بہانے سے میں اس صنم کے ساتھ رہا
نظیرؔ پیر ہوا تو بھی بار ناز بتاں
کچھ اس کے دوش کے کچھ پشت خم کے ساتھ رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |