خیر لایا تو جنوں دیوار سے در کی طرف
خیر لایا تو جنوں دیوار سے در کی طرف
اب نظر جانے لگی باہر سے اندر کی طرف
کشتئ امید کے ہر بادباں اڑنے لگے
کس نے رخ موڑا ہواؤں کا سمندر کی طرف
یوں بھی ہوتا ہے مدارات جنوں کے شوق میں
پھول جیسے ہاتھ اٹھ جاتے ہیں پتھر کی طرف
ہم نے سمجھے تھے کہ یہ ہوگا مآل کار عشق
رخ کیا باد بہاری نے مرے گھر کی طرف
دی ہے نیرؔ مجھ کو ساقی نے یہ کیسی خاص مے
سب کی نظریں اٹھ رہی ہیں میرے ساغر کی طرف
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |