دارالمکافات

دارالمکافات
by نظیر اکبر آبادی

ہے دنیا جس کا ناؤں میاں یہ اور طرح کی بستی ہے
جو مہنگوں کو یہ مہنگی ہے اور سستوں کو یہ سستی ہے
یاں ہر دم جھگڑے اٹھتے ہیں ہر آن عدالت بستی ہے
گر مست کرے تو مستی ہے اور پست کرے تو پستی ہے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے
جو اور کسی کا مان رکھے تو اس کو بھی ارمان ملے
جو پان کھلا دے پان ملے جو روٹی دے تو نان ملے
نقصان کرے نقصان ملے احسان کرے احسان ملے
جو جیسا جس کے ساتھ کرے پھر ویسا اس کو آن ملے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے
جو اور کسی کی جاں بخشے تو اس کی بھی حق جان رکھے
جو اور کسی کی آن رکھے تو اس کی بھی حق آن رکھے
جو یاں کا رہنے والا ہے یہ دل میں اپنے جان رکھے
یہ ترت پھرت کا نقشہ ہے اس نقشے کو پہچان رکھے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے
جو پار اتارے اوروں کو اس کی بھی پار اترنی ہے
جو غرق کرے پھر اس کو بھی ڈبکوں ڈبکوں کرنی ہے
شمشیر تبر بندوق سناں اور نشتر تیر نہرنی ہے
یاں جیسی جیسی کرنی ہے پھر ویسی ویسی بھرنی ہے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے
جو اوپر اونچا بول کرے تو اس کا بول بھی بالا ہے
اور دے پٹکے تو اس کو بھی کوئی اور پٹکنے والا ہے
بے ظلم و خطا جس ظالم نے مظلوم ذبح کر ڈالا ہے
اس ظالم کے بھی لوہو کا پھر بہتا ندی نالا ہے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے
جو مصری اور کے منہ میں دے پھر وہ بھی شکر کھاتا ہے
جو اور تئیں اب ٹکر دے پھر وہ بھی ٹکر کھاتا ہے
جو اور کو ڈالے چکر میں پھر وہ بھی چکر کھاتا ہے
جو اور کو ٹھوکر مار چلے پھر وہ بھی ٹھوکر کھاتا ہے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے
جو اور کسی کو ناحق میں کوئی جھوٹی بات لگاتا ہے
اور کوئی غریب اور بیچارہ حق نا حق میں لٹ جاتا ہے
وہ آپ بھی لوٹا جاتا ہے اور لاٹھی پاٹھی کھاتا ہے
جو جیسا جیسا کرتا ہے پھر ویسا ویسا پاتا ہے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے
جو اور کی پگڑی لے بھاگے اس کا بھی اور اچکا ہے
جو اور پہ چوکی بٹھلاوے اس پر بھی دھونس دھڑکا ہے
یاں پشتی میں تو پشتی ہے اور دھکے میں یاں دھکا ہے
کیا زور مزے کا جمگھٹ ہے کیا زور یہ بھیڑ بھڑکا ہے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے
ہے کھٹکا اس کے ہاتھ لگا جو اور کسی کو دے کھٹکا
اور غیب سے جھٹکا کھاتا ہے جو اور کسی کے دے جھٹکا
چیرے کے بیچ میں چیرا ہے اور پٹکے بیچ جو ہے پٹکا
کیا کہیے اور نظیرؔ آگے ہے زور تماشا جھٹ پٹکا
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse