داستان غم دل ان کو سنائی نہ گئی
داستان غم دل ان کو سنائی نہ گئی
بات بگڑی تھی کچھ ایسی کہ بنائی نہ گئی
سب کو ہم بھول گئے جوش جنوں میں لیکن
اک تری یاد تھی ایسی جو بھلائی نہ گئی
عشق پر کچھ نہ چلا دیدۂ تر کا قابو
اس نے جو آگ لگا دی وہ بجھائی نہ گئی
پڑ گیا حسن رخ یار کا پرتو جس پر
خاک میں مل کے بھی اس دل کی صفائی نہ گئی
کیا اٹھائے گی صبا خاک مری اس در سے
یہ قیامت تو خود ان سے بھی اٹھائی نہ گئی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |