داغؔ اس بزم میں میہمان کہاں جاتا ہے
داغ اس بزم میں میہمان کہاں جاتا ہے
تیرا اللہ نگہبان کہاں جاتا ہے
پاؤں سے میرے بیابان کہاں چھٹتا ہے
ہاتھ سے میرے گریبان کہاں جاتا ہے
غیر جاتا تھا وہاں میں نے یہ کہہ کر روکا
تجھ سے کچھ جان نہ پہچان کہاں جاتا ہے
ہجر کے دن کی مصیبت تو گزر جائے گی
وصل کی رات کا احسان کہاں جاتا ہے
روٹھ کر بزم سے اٹھا تو نہ روکا مجھ کو
نہ کہا اس نے کہا مان کہاں جاتا ہے
بند کرتے ہو جو ہاتھوں سے تم آنکھیں میری
کیا کہوں میں کہ مرا دھیان کہاں جاتا ہے
داغؔ تم نے تو بڑی دھوم سے کی تیاری
آج یہ عید کا سامان کہاں جاتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |