دامن کو اس کے کھینچیں اغیار سب طرف سے

دامن کو اس کے کھینچیں اغیار سب طرف سے
by میر حسن دہلوی

دامن کو اس کے کھینچیں اغیار سب طرف سے
اور آہ ہم یہ کھینچیں آزار سب طرف سے

جب کام دل نہ ہرگز حاصل ہوا کہیں سے
دل کو اٹھا کے بیٹھے ناچار سب طرف سے

جی چاہتا ہے اس کے کوچہ میں بیٹھ رہیے
کر ترک آشنائی یکبار سب طرف سے

تجھ پاس بھی نہ آویں ہم اب تو جائیں کیدھر
تو نے تو ہم کو کھویا اے یار سب طرف سے

مژگاں سے اس کے کیوں کر دل چھٹ سکے ہمارا
گھیرے ہوئے ہیں اس کو وے خار سب طرف سے

پردے ہزار ہوویں حائل پہ حسن اس کا
دیتا ہے طالبوں کو دیدار سب طرف سے

کونا بھی ایک دل کا ثابت نہیں یہ کس نے
اس گھر کو کر دیا ہے مسمار سب طرف سے

نالہ ضعیف اپنا پہنچے گا کیونکہ واں تک
کی ہے بلند اس نے دیوار سب طرف سے

اک بار تو عزیزاں تم مل کے حال میرا
کر بیٹھو اس کے آگے اظہار سب طرف سے

دیوانہ ہو کے چھوٹا دنیا سے ورنہ یاراں
ہوتے گلے کے میرے تم ہار سب طرف سے

وے دن بھی آہ کوئی کیا تھے کہ جن دنوں میں
دل کو خوشی تھی اپنے دل دار سب طرف سے

بس تیرے غم میں آ کر اب خاک ہو گئے ہم
دل بجھ گیا ہمارا اک بار سب طرف سے

ذکر وفا و الفت مت چھیڑ بس حسنؔ اب
جی ہو رہا ہے اپنا بیزار سب طرف سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse