دام خیال زلف بتاں سے چھڑا لیا

دام خیال زلف بتاں سے چھڑا لیا
by صفی اورنگ آبادی

دام خیال زلف بتاں سے چھڑا لیا
کیا بال بال مجھ کو خدا نے بچا لیا

اب اس کو رحم آئے یہ قسمت کے ہاتھ ہے
بن جائے بات حال تو ہم نے بنا لیا

شرما کے منہ چھپانے کا انداز دیکھنا
گویا کہ اس نے عیب ہمارا چھپا لیا

یا یہ کہ ہم نے ترک محبت کی ٹھان لی
یا یہ ہوا کہ آج کسی کو منا لیا

ہوتا ہوں ایک نالے پہ میں قتل ہائے ہائے
آواز دے کے اپنی قضا کو بلا لیا

ظالم فریب دے کے نہ لے دل غریب کا
اک روز کام آئے گا تیرا دیا لیا

رشک رقیب ہو کہ غم دورئ حبیب
جو وقت پر نصیب ہوا ہم نے کھا لیا

میں کیا کہوں کے جان رہی کس عذاب میں
جب اس نے مجھ کو اپنی برابر بٹھا لیا

جھوٹا سہی ذلیل سہی کوئی کچھ کہے
میں نے تو آج ان کو گلے سے لگا لیا

پوچھی ہے دوست بن کے مرے دل کی آرزو
اس نے زبان دے کے مرا مدعا لیا

لے کوئی شان کی تو بس اتنا کیا کرو
جس سے کوئی بڑائی سنی آزما لیا

مہمان دوست کو جو کیا دوستوں کے ساتھ
دیکھا تھا جس کو دیدہ وروں کو دکھا لیا

اس کی بھی موت سہل ہو سکرات سے بچے
جس نے ہماری نزع میں نام آپ کا لیا

بیٹھے تو بات کرنے نہ دی بزم غیر میں
اٹھے تو اپنے ساتھ ہی مجھ کو اٹھا لیا

دل کا ہی ایک نام ہے شاید خیال بھی
ایسا اگر نہیں ہے تو دل اس نے کیا لیا

معشوق کو تو جلوہ نمائی ضرور ہے
دیکھو عزیز مصر کے سو میں دکھا لیا

اس درجہ تو نے خستہ کیا اے غم فراق
ہم کو ہماری گور نے ہونٹوں سے کھا لیا

سمجھا صفیؔ کو آپ نے جو کچھ غلط ہے یہ
دنیا کا بد معاش زمانے کا چالیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse