دخل ہر دل میں ترا مثل سویدا ہو گیا

دخل ہر دل میں ترا مثل سویدا ہو گیا
by شیخ علی بخش بیمار

دخل ہر دل میں ترا مثل سویدا ہو گیا
الاماں اے زلف عالمگیر سودا ہو گیا

گو پڑا رہتا ہوں آب اشک میں مثل حباب
سوزش دل سے مگر سب جسم چھالا ہو گیا

اے شہ خوباں تصور سے ترے رخسار کے
چشم کا پردا بعینہ لعل پردا ہو گیا

فرق رندان و ملائک اب بہت دشوار ہے
مے کدہ اس کے قدم سے روشن ایسا ہو گیا

دانۂ انگور اختر چاندنی مے ماہ جام
نثر طائر بط قرابا چرخ مینا ہو گیا

سنتے ہیں تائب ہوا اس بت کے گھر جانے سے تو
کیا ترا بیمارؔ پتھر کا کلیجا ہو گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse