درد آغاز محبت کا اب انجام نہیں
درد آغاز محبت کا اب انجام نہیں
زندگی کیا ہے اگر موت کا پیغام نہیں
کیجیے غور تو ہر لذت دنیا ہے فریب
کون دانہ ہے یہاں پر جو تہ دام نہیں
ہے تنزل کہ زمانے نے ترقی کی ہے
کفر وہ کفر اب اسلام وہ اسلام نہیں
کون آزاد نہیں حلقہ بگوشوں میں ترے
نقش کس دل کے نگینے پہ ترا نام نہیں
نا رسیدہ ہے ترا میوۂ جنت زاہد
پختہ مغزوں کو تلاش ثمر خام نہیں
یہی جنت ہے جو حاصل ہو سکون خاطر
اور دوزخ یہی دنیا اگر آرام نہیں
شعر گوئی کے لیے بس وہی موزوں ہے صفیؔ
جس کو جز فکر سخن اور کوئی کام نہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |