درد دل اپنا سنانا چاہئے
درد دل اپنا سنانا چاہئے
ہنسنے والوں کو رلانا چاہئے
کوئے قاتل میں جو ہونی ہو سو ہو
بے تکلف آنا جانا چاہئے
تیغ ابرو کے شہیدوں کے لئے
آخری خلعت شہانہ چاہئے
گر قدم رکھنا ہے کوئے یار میں
زندگی سے ہاتھ اٹھانا چاہئے
کیا کہوں بیدردیٔ صیاد عشق
اس کے پھندے میں نہ آنا چاہئے
ہم جو بیٹھیں تو کہاں جز کوئے دوست
کوئی اپنا بھی ٹھکانا چاہئے
رنج دے کر خوش نہیں رہتا کوئی
کیوں کسی کا دل دکھانا چاہئے
قصۂ فرہاد و مجنوں ہو جہاں
کچھ تو اپنا بھی فسانا چاہئے
دیکھنا ہے گر بہار باغ عشق
خون کے آنسو بہانا چاہئے
یار کے در کی ہے چھانی جس نے خاک
اس کو سر پر خاک اڑانا چاہئے
جاگ کے کیوں سو گئے پھر اے حقیرؔ
کیا تمہیں ہر دم جگانا چاہئے
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |