درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی
درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی
موت آئے گی تو اے ہمدم شفا ہو جائے گی
ہوگی جب نالوں کی اپنے زیر گردوں بازگشت
میرے درد دل کی شہرت جا بجا ہو جائے گی
کوئے جاناں میں اسے ہے سجدہ ریزی کا جو شوق
میری پیشانی رہین نقش پا ہو جائے گی
کاکل پیچاں ہٹا کر رخ سے آؤ سامنے
پردہ دار حسن محفل میں ضیا ہو جائے گی
جب یہ سمجھوں گا کہ میری زیست ہے ممنون مرگ
موت میری زندگی کا آسرا ہو جائے گی
انتظار وصل کرنا عمر بھر ممکن تو ہے
گو نہیں معلوم حالت کیا سے کیا ہو جائے گی
محتسب اور ہم ہیں دونوں متفق اس باب میں
برملا جو مے کشی ہو بے ریا ہو جائے گی
میں ابھی سے جان دے دوں گا جو راہ عشق میں
انتہا مجنوں کی میری ابتدا ہو جائے گی
فاش راز دل نہیں کرتا مگر یہ ڈر تو ہے
بے خودی میں آہ لب سے آشنا ہو جائے گی
باریاب خواب گاہ ناز ہونے دو اسے
ان کی زلفوں میں پریشاں خود صبا ہو جائے گی
مقصد الفت کو کر لو پہلے شیداؔ دل نشیں
ورنہ ہر آہ و فغاں بے مدعا ہو جائے گی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |