درمدح شاہ
اے شاہ جہانگیر جہاں بخش جہاں دار
ہے غیب سے ہر دم تجھے صد گونہ بشارت
جو عقدہ دشوار کہ کوشش سے نہ وا ہو
تو وا کرے اس عقدے کو سو بھی بہ اشارت
ممکن ہے کرے خضر سکندر سے ترا ذکر
گر لب کو نہ دے چشمۂ حیواں سے طہارت
آصف کو سلیماں کی وزارت سے شرف تھا
ہے فخر سلیماں جو کرے تیری وزارت
ہے نقش مریدی ترا فرمان الہی
ہے داغ غلامی ترا توقیع امارت
تو آب سے گر سلب کرے طاقت سیلاں
تو آگ سے گر دفع کرے تاب شرارت
ڈھونڈے نہ ملے موجۂ دریا میں روانی
باقی نہ رہے آتش سوزاں میں حرارت
ہے گرچہ مجھے نکتہ سرائی میں توغل
ہے گرچہ مجھے سحر طرازی میں مہارت
کیوں کر نہ کروں مدح کو میں ختم دعا پر
قاصر ہے ستایش میں تری میری عبارت
نو روز ہے آج اور وہ دن ہے کہ ہوئے ہیں
نظارگی صنعت حق اہل بصارت
تجھ کو شرف مہر جہاں تاب مبارک
غالبؔ کو ترے عتبۂ عالی کی زیارت
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |